مشکوٰۃ المصابیح - قربانى کا بیان - حدیث نمبر 1437
وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْاُذُنَ وَاَنْ لَّا نُضَحِّیَ بِمُقَابَلَۃٍ وَلَا مُدَآبَرَۃٍ وَّلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَلنِّسَائِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَانْتَھَتْ رِوَایَتُہ، اِلَی قَوْلِہٖ وَالاذُنَ۔
عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ( قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں ( کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں یہ روایت جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ والاذن ختم ہوگئی ہے۔

تشریح
حضرت امام شافعی کے نزدیک اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تھوڑا سا بھی کٹا ہوا ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے اگر کان آدھے سے کم کٹا ہوا ہو۔ حضرت امام طحاوی حنفی (رح) فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی کا عمل اس حدیث پر ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے جو بہت جامع ہے کیونکہ اس مسلک سے اس حدیث میں اور فتادہ کی حدیث میں تطبیق ہوجاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت قتادہ حضرت ابن کلیب سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عضبائے قرن و اذن ( کی قربانی) سے منع فرمایا ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید ابن المسیب سے پوچھا کہ یہ عضائے اذن کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ حنیفہ کے نزدیک کیسے جانور کی قربانی جائز نہیں؟ اس مسئلہ میں حنیفہ کا جو مسلک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے جس کے کان پیدائشی نہ ہوں، اسی طرح ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں جس کی دم اور ناک تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو، جو جانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے جس جانور کے تھن خشک ہوگئے ہوں اس کی قربانی بھی درست نہیں او ایسے جانور کی بھی درست نہیں جس میں مغز نہ رہا ہو اور نہ ایسے لنگڑے کی جو قربانی کی جگہ تک نہ جاسکے اور نہ ایسے بیمار کی جو گھاس نہ کھا سکے نہ ایسے جانور کی جس کے خارش ہو، وہ بغیر دانت کے جانور کی جو گھاس نہ کھا سکتا اور نہ نجاست خور جانور کی، ہاں ایسے جانور کی قربانی درست ہے جس کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا یا پیچھے کی طرف پھٹا ہوا، اس صورت میں کہا جائے گا یہ حدیث کہ جس سے ایسے جانور کی قربانی کی ممانعت معلوم ہو رہی ہے نہی تنز یہی پر محمول ہے۔
Top