مشکوٰۃ المصابیح - قربانى کا بیان - حدیث نمبر 1433
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَرضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَاَرَادَ بَعْضُکُمْ اَنْ ےُّضَحِّیَ فَلَا ےَمَسَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَبَشَرِہٖ شَےْئًا وَّفِیْ رَوَاےَۃٍ فَلَا ےَاْخُذَنَّ شَعْرًا وَّلَا ےَقْلِمَنَّ ظُفْرًا وَّفِیْ رِوَاےَۃٍ مَّنْ رَّاٰی ھِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ وَاَرَادَ اَنْ ےُّضَحِّیَ فَلَا ےَاْخُذْ مِنْ شَعْرِہٖ وَلاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ۔(صحیح مسلم)
قربانی کرنے والے کے لئے کچھ ہدایتیں
اور حضرت ام سلمہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ ( اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے ایک روایت میں یوں ہے کہ نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بقر عید کا چاند دیکھنے لینے کے بعد قربانی کرلینے تک بال وغیرہ کٹوانے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے تاکہ احرام والوں کی مشابہت حاصل ہوجائے۔ لیکن یہ ممانعت تنزیہی ہے لہٰذا بال وغیرہ کا نہ کٹوانا مستحب ہے اور اس کے خلاف عمل کرنا ترک اولی ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔
Top