مشکوٰۃ المصابیح - قربانى کا بیان - حدیث نمبر 1428
وَعَنْ عَائِشَۃَرضی اللہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَرَ بِکَبْشٍ اَقْرَنَ ےَطَأُ فِیْ سَوَادٍ وَّےَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ وَےَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ فَاُتِیَ بِہٖ لِےُضَحِّیَ بِہٖ قَالَ ےَا عَآئِشَۃُ ھَلُمِّی الْمُدْےَۃَ ثُمَّ قَالَ اشْحَذِےْھَا بِحَجَرٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ اَخَذَھَا وَاَخَذَ الْکَبْشَ فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ ذَبَحَہُ ثُمَّ قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ ضَحّٰی بِہٖ۔(صحیح مسلم)
قربانی کے دنبہ کی صفات
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (قربانی کے لئے) ایک ایسے سینگ دار دنبہ کے لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) سیاہی میں بیٹھا ہو (یعنی اس کا پیٹ اور سینہ سیاہ ہو) اور سیاہی میں دیکھا ہو (یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی ہو) چناچہ (جب) آپ کے لئے قربانی کے واسطے ایسا دنبہ لایا گیا ( تو) فرمایا کہ عائشہ! چھری لاؤ (جب چھری لائی تو) پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر (رگڑ کر) تیز کرو، میں نے چھری تیز کی، آپ نے چھری لی اور دنبے کو پکڑ کر اسے لٹایا پھر جب اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو یہ فرمایا کہ اللھم تقبل من محمد و ال محمد و من امۃ محمد (یعنی اے اللہ! اسے محمد ﷺ، آل محمد ﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما) پھر اسے ذبح کردیا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جب جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے چھری تیز کرنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو درے سے مارا تھا جس نے ایسا کیا تھا۔ اسی طرح ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا بھی مکروہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ذبح کرتے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے اس سے مراد صرف ثواب میں امت کو شریک کرنا تھا نہ یہ کہ آپ ﷺ نے سب کی طرف سے قبربانی کی تھی کیونکہ ایک دنبہ یا ایک بکری کی قربانی کئی آدمیوں کی طرف سے درست نہیں ہے۔
Top