مشکوٰۃ المصابیح - قربانى کا بیان - حدیث نمبر 1423
وَعَنْ اَبِی عُمَیْرِ ابْنِ اَنَسَ عَنْ عُمُوْمَۃِ لَّہ، مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ رَکْبًا جَآءُ وْ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم یَشْھَدُوْنَ اَنَّھُمْ رَءُ و الْھِلَالَ بِالْاَمْسِ فَاَمَرَھُمْ اَنْ یُّفْطِرُوْ وَاِذَا اَصْبَحُوْا اَنْ یَّغْدُوْ اِلَی مُصَلَّاھُمْ۔ (رواہ ابوداؤ و السنن نسائی )
چاند کی شہادت زوال کے بعد آئے تو عید کی نماز دوسرے دن پڑھی جائے
اور حضرت عمیر بن انس اپنے چچاؤں سے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے تھے، نقل کرتے ہیں کہ ایک قافلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا کہ صبح عید گاہ جائیں۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)

تشریح
رمضان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو اہل مدینہ نے عید کا چاند نہیں دیکھا چناچہ انہوں نے تیس تاریخ کو روزہ رکھا۔ اتفاق سے اسی روز ایک قافلہ باہر سے مدینہ آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس بات کی شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا۔ آپ ﷺ نے اس قافلہ کی شہادت کو مانتے ہوئے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کردیں۔ اور چونکہ چاند ہونے کی یہ شہادت زوال آفتاب کے بعد آئی تھی اور نماز عید کا وقت نہ رہا تھا۔ جیسا کہ ایک روایت میں یہ صراحت بھی ہے کہ انھم قدموا اخر النھار (یعنی قافلہ دن کے آخری حصہ میں مدینہ پہنچا تھا) آپ ﷺ نے نماز عید کا کے بارے میں یہ حکم دیا کہ کل صبح ادا کی جائے۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا اسی پر عمل ہے کہ آفتاب بلند ہونے کے بعد نماز عید کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور زوال آفتاب تک رہتا ہے۔ شرح منیہ لکھا کہ اگر کوئی ایسا عذر پیش آجائے جو عید الفطر کے روز زوال آفتاب سے پہلے نماز عید کی ادائیگی کے لئے مانع ہو تو عید کی نماز اس روز پڑھنے کی بجائے دوسرے روز زوال آفتاب سے پہلے ادا کرلی جائے۔ اگر دوسرے دن بھی کوئی عذر نماز کی ادائیگی کے لئے مانع ہو تو پھر نماز نہ پڑھی جائے۔ بخلاف بقر عید کی نماز کے کہ اگر اس کی ادائیگی کے لئے کوئی عذر پہلے اور دوسرے روز مانع ہو تو تیسرے روز بھی اس کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ویسے بقر عید کی نماز میں بلا عذر بھی دوسرے یا تیسرے دن تک تاخیر جائز ہے مگر مکروہ ہے۔
Top