مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2212
عن أبي سعيد الخدري قال : جلست في عصابة من ضعفاء المهاجرين وإن بعضهم ليستتر ببعض من العري وقارئ يقرأ علينا إذ جاء رسول الله صلى الله عليه و سلم فقام علينا فلما قام رسول الله صلى الله عليه و سلم سكت القارئ فسلم ثم قال : ما كنتم تصنعون ؟ قلنا : كنا نستمع إلى كتاب الله قال فقال : الحمد لله الذي جعل من أمتي من أمرت أن أصبر نفسي معهم . قال فجلس وسطنا ليعدل بنفسه فينا ثم قال بيده هكذا فتحلقوا وبرزت وجوههم له فقال : أبشروا يا معشر صعاليك المهاجرين بالنور التام يوم القيامة تدخلون الجنة قبل أغنياء الناس بنصف يوم وذاك خمسمائة سنة . رواه أبو داود
غرباء مہاجرین کو بشارت
حضرت ابوسعید ؓ خدری کہتے ہیں کہ میں ایک دن غرباء مہاجرین (یعنی اصحاب صفہ) کی ایک جماعت کے درمیان بیٹھا تھا ان میں سے کچھ ننگے بدن ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص ہمارے سامنے قرآن پڑھ رہا تھا کہ اچانک نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے پڑھنے والے نے جب نبی کریم ﷺ کو کھڑے ہوئے دیکھا تو وہ چپ ہوگیا اس وقت آپ ﷺ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم کتاب اللہ سن رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں وہ لوگ پیدا کئے جن کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کے ساتھ بیٹھوں۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ فرما کر آپ ﷺ ہمارے درمیان بیٹھ گئے (یعنی کسی خاص شخص کے پہلو میں نہیں بیٹھے) تاکہ آپ ﷺ کی ذات اقدس کا تعلق ہم سب کے ساتھ یکساں رہے پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اس طرح اشارہ کیا (کہ حلقہ بنا کر بیٹھ جاؤ) سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور ان سب کے منہ آپ کی طرف ہوگئے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اے مہاجرین کے مفلس گروہ تمہیں خوش خبری ہو اس بات کی کہ قیامت کے دن تمہیں بھر پور نور حاصل ہوگا اور تم دولت مند طبقے سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوگئے اور آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہوگا۔ (ابو داؤد)

تشریح
وان بعضہم الخ کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنے ساتھی کی بہ نسبت کم کپڑا تھا وہ اپنے اس ساتھی کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا تاکہ کپڑا کم ہونے کی وجہ سے اس کا بند نظر نہ آسکے، چناچہ ننگے بدن سے مراد ستر کے علاوہ جسم کے بقیہ حصہ کا کپڑے سے عاری ہوتا ہے اور ستر کے علاوہ جسم کے بقیہ حصہ کو بھی عام نظروں سے بچانے کی وجہ نہ صرف یہ ہے کہ ان مقدس ہستیوں کا کمال شرم و حیاء کے درجہ پر ہونا تھا بلکہ یہ بات انسانی آداب و معاشرت کے خلاف ہے کہ جسم کے اس حصہ کو عام نظروں میں کھلا رہنے دیا جائے جو عام طور پر کھلا نہیں رہتا۔ اس صورت حال کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صحابہ کی اس مقدس جماعت کے فقر و افلاس کا اظہار ہے کہ وہ اپنے بدن کو چھپانے کے لئے پورے طور پر کپڑا بھی نہیں رکھتے تھے اسی لئے وہ مجلس میں ایک دوسرے سے مل کر بیٹھتے تھے تاکہ ایک طرح کی پوشیدگی حاصل ہوجائے۔ اس وقت آپ نے ہمیں سلام کیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص قرآن پڑھ رہا ہو اسے سلام نہ کرنا چاہئے جب وہ خاموش ہوجائے اس وقت سلام کیا جائے جیسا کہ فقہ کا مسئلہ ہے اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن پڑھنے والے کو سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ صحابہ کو قرآن کی سماعت میں مشغول دیکھنے کے باوجود آپ ﷺ نے ان سے یہ بات کی کہ تم کیا کر رہے ہو۔ جان بوجھ کر اس لئے پوچھی تاکہ ان کا جواب سن کر انہیں یہ عظیم بشارت و خوشخبری سنائیں۔ امرت ان اصبر نفسی الخ اس آیت کریمہ طرف اشارہ ہے۔ آیت (وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَه عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُه فُرُطًا) 18۔ الکہف 28) (اور آپ ﷺ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں مقید کرلیجئے جو صبح وشام یعنی ہمیشہ اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لئے کرتے ہیں اور دنیوی زندگانی کی رونق کے خیال سے آپ ﷺ کی آنکھیں (یعنی توجہات) ان سے ہٹنے نہ پائیں اور ایسے شخص کا کہنا نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہے اور اس کا یہ حال حد سے گزر گیا ہے راوی کے یہ الفاظ لیعدل الخ کا مطلب ہے کہ تاکہ آپ ﷺ اپنے آپ کو ہمارے درمیان بٹھانے کے معاملہ میں ہم سب کے ساتھ عدل کا معاملہ کریں تاکہ آپ ﷺ کا قرب سب کے ساتھ یکساں رہے یعنی اگر آپ ﷺ کسی شخص کے پاس بیٹھ جاتے تو بقیہ لوگوں کو اس کی خوش بختی پر رشک آتا اور سب کی خواہش یہی ہوتی کہ آپ میرے پاس ہی بیٹھیں اس لئے آپ ﷺ کسی ایک شخص کے پاس بیٹھنے کی بجائے درمیان میں بیٹھے تاکہ قرب کی سعادت سب کو یکساں طور پر حاصل ہو۔ علامہ طیبی نے اس جملہ کے معنی یہ لکھے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان اس لئے بیٹھے تاکہ آپ ﷺ ہمارے درمیان برابری کریں اور اپنی ذات کو ہم سب سے ممتاز ونمایا کریں۔ سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے کا مطلب یہ ہے کہ سب آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اسی طرح ان سب کے منہ آپ کی طرف ہوگئے کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ آپ ﷺ کے سامنے اس طرح بیٹھے کہ آنحضرت ﷺ سب کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ قیامت کے دن تمہیں بھرپور نور حاصل ہوگا سے اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن سرمایہ دار اور دولت مند طبقہ (دنیا دار) کو بھر پور نور حاصل نہیں ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے آخرت کو درست رکھا اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی دنیا کو دوست رکھا اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا لہٰذا جو چیز فنا ہوجانے والی ہے (یعنی دنیا) اس کے مقابلہ میں اس چیز (یعنی آخرت) کو اختیار کرو جو باقی رہنے والی ہے۔ اور تم دولت مند طبقہ سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہو گے۔ اس بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہاں فقراء سے وہ فقراء مراد ہیں جو صالح اور صابر ہوں، اسی طرح دولت مند سے وہ دولت مند مراد ہیں جو صالح و شاکر اور اپنے مال کا حق (یعنی صدقات و زکوٰۃ وغیرہ) ادا کرنے والے ہوں انہیں میدان حشر میں کھڑا کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے مال کہاں سے اور کن ذریعوں سے حاصل کیا اور تم نے اس مال کو کہاں کہاں خرچ کیا، وہ اس حساب کتاب میں مصروف ہوں گے کہ فقراء جنت میں داخل بھی ہوجائیں گے۔ اس سے ایک بات معلوم ہوئی کہ قیامت کے روز اللہ کے فضل و کرم سے اور اس کی رحمت میں فقراء کا حصہ دولت مند طبقہ کے حصے سے زیادہ ہوگا کیونکہ دولت مند طبقہ نے تو دنیا میں راحت و نصرت پائی تھی جبکہ فقراء محروم رہے تھے۔
Top