مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2147
وعن الحارث الأعور قال : مررت في المسجد فإذا الناس يخوضون في الأحاديث فدخلت على علي رضي الله عنه فأخبرته قال : أوقد فعلوها ؟ قلت نعم قال : أما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ألا إنها ستكون فتنة . فقلت ما المخرج منها يا رسول الله قال : كتاب الله فيه نبأ ما كان قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم وهو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله ومن ابتغى الهدى في غيره أضله الله وهو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم هو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا تلتبس به الألسنة ولا يشبع منه العلماء ولا يخلق على كثرة الرد ولا ينقضي عجائبه هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا ( إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد فآمنا به ) من قال به صدق ومن عمل به أجر ومن حكم به عدل ومن دعا إليه هدى إلى صراط مستقيم . رواه الترمذي والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث إسناده مجهول وفي الحارث مقال
قرآن سرچشمہ ہدایت ہے
حضرت حارث (رح) جو اعور (یعنی کانی آنکھ والے) تھے راوی ہیں کہ میں ایک دن کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بیکار و لایعنی گفتگو (یعنی قصے کہانیوں) میں مصروف ہیں (اور انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ ترک کی ہوئی ہے) چناچہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا ور ان سے اس بارے میں بتایا، انہوں نے فرمایا کیا انہوں نے واقعی ایسا کیا ہے (کہ تلاوت قرآن مجید چھوڑ کر بیکار باتوں میں مصروف ہیں؟ ) میں نے کہا کہ جی ہاں! انہوں نے فرمایا تو پھر سن لو میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خبردار! فتنہ واقع ہوگا (یعنی لوگوں کے دینی افکار و عقائد میں اختلاف ہوگا، اعمال میں سست روی اور گمراہی پیدا ہوگی اور وہ گمراہ لوگ اسلام کے نام پر نت نئے مذاہب و نظریات کی داغ بیل ڈالیں گے) میں نے عرض کیا کہ حضرت ﷺ! پھر اس سے نجات پانے کا کیا راستہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کتاب اللہ (یعنی نجات کا راستہ قرآن پر عمل کرنے ہی سے ہاتھ لگے گا) جس میں تم سے پہلے لوگوں (یعنی پچھلی امتوں) کے حالات بھی ہیں اور ان باتوں کی خبر بھی دی گئی ہے جو تمہارے بعد واقع ہونے والی ہیں (یعنی قیامت کی علامات و احوال) اور اس قرآن میں وہ احکام بھی مذکورہ ہیں جو تمہارے درمیان (ضروری) ہیں (یعنی ایمان و کفر، اطاعت و گناہ حلال و حرام اور اسلام کے شرائع نیز آپس کے تمام معاملات وغیرہ کے بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں جو پوری انسانی برادری کے لئے ضروری ہیں) اور (یاد رکھو) وہ قرآن حق و باطل کے درمیان (اپنے احکام کے ذریعہ سے) فرق کرنے والا ہے وہ کوئی بیکار و لایعنی چیز نہیں ہے اور (یہ بھی کان کھول کر سن لو کہ) جس متکبر نے قرآن کو چھوڑ دیا اس کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر ڈالے گا اور جو شخص اس قرآن کے علاوہ (کسی ایسی کتاب و علم سے کہ جو نہ قرآن سے مستنبط ہے اور نہ اسلامی شرائع و نظریات کے مطابق ہے) ہدایت و روشنی چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا وہ قرآن اللہ کی مضبوط سیدھی رسی ہے (یعنی اللہ کے قرب اور اس کی معرفت کا سب سے قوی وسیلہ ہے) قرآن باحکمت ذکر اور بیان ہے، قرآن بالکل سیدھا اور صاف راستہ ہے (جس پر چل کر انسان اپنی تخلیق کا حقیقی مقصد پاتا ہے) قرآن وہ سرچشمہ ہدایت ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میں خواہشات انسانی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں اس کی زبان سے اور زبانیں نہیں ملتیں علماء اس سے (کبھی) سیر نہیں ہوتے (یعنی علماء و مفسرین اس کے تمام علوم و معارف پر حاوی نہیں ہوتے) اور قرآن مجید مزاولت (کثرت تلاوت) سے پرانا نہیں ہوتا اور نہ اس کے عجائب تمام ہوتے ہیں قرآن کریم وہ کلام ہے جس کو جنات نے سنا تو وہ ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہہ اٹھے کہ ہم نے قرآن سنا جو ہدایت کی عجیب راہ دکھاتا ہے لہٰذا ہم اس پر ایمان لائے (یاد رکھو) جس شخص نے قرآن کے مطابق کہا اس نے سچ کہا اور جس نے اس پر عمل کیا اسے ثواب دیا جائے گا (یعنی وہی اقوال و نظریات صحیح اور قابل قبول ہیں جو قرآن کے عین مطابق ہیں اسی طرح ہدایت یافتہ بھی وہی شخص ہے جس نے قرآن کو سرچشمہ ہدایت جان کر اس پر عمل کیا) جس شخص نے (لوگوں کے درمیان) قرآن کے مطابق فیصلہ و انصاف کیا اور جس نے (لوگوں کو) اس (پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے) کی طرف بلایا اس کو سیدھی راہ دکھائی گئی ہے (یعنی وہ ہدایت یافتہ ہے)۔ (ترمذی، دارمی اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند مجہول ہے اور اس کے راوی حارث اعور کے بارے میں کلام ہے (یعنی ان کے سچا ہونے میں شبہ کیا جاتا ہے۔

تشریح
متکبر سے مراد منکر قرآن ہے یعنی وہ شخص جو قرآن پر ایمان نہیں لایا اور نہ اس نے قرآن پر عمل کیا اور ظاہر ہے کہ ایسا بدبخت شخص وہی ہوسکتا ہے جس کے قلب میں غرور تکبر اور تعصب کے جراثیم موجود ہوں۔ حدیث میں لفظ قصم کے معنی ہیں توڑ ڈالنا اور جدا کردینا اس لئے اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ جس متکبر نے قرآن چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ اس کی گردن توڑ ڈالے گا لیکن عام طور پر اس کا ترجمہ یہی کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر ڈالے گا۔ کیونکہ مفہوم و حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص قرآن کا انکار کرے گا یا اس پر عمل نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا جس کا مآل کار ہلاکت و تباہی ہے بخلاف اس شخص کے کہ جو قرآن پر ایمان بھی لائے اور اس پر عمل بھی کرے اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے قریب کر دے گا اور اسے اعلیٰ مراتب و درجات عطا فرمائے گا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے قرآن کی کسی ایسی ایک آیت یا ایک کلمہ پر بھی عمل کرنا چھوڑ دیا جس پر عمل کرنا واجب ہے یا از راہ تکبر اس آیت یا کلمہ کی قرأت نہیں کی تو وہ شخص کافر ہوجاتا ہے ہاں اگر کوئی محض کسل و ضعف یا عجز کی وجہ سے قرآن کی تلاوت چھوڑ دے مگر اس کا قلب قرآن کی عظمت و حرمت کے اعتقاد سے پر ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں البتہ وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔ خواہشات انسانی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں۔ اس پورے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن کی اتباع کرتا ہے اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر موڑ پر قرآن کی رہنمائی و ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ ہر گمراہی اور ہر ضلالت سے محفوظ رہتا ہے توفیق الٰہی اسے اسی راستہ پر گامزن رکھتی ہے جو حق و ہدایت کی شاہراہ ہوتی ہے۔ اگر اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہو کہ اہل بدعت اور روافض و خوارج یا موجودہ دور کے دوسرے فرقے وغیرہ بھی تو قرآن ہی سے استدلال کرتے ہیں اور قرآن ہی کی رہنمائی ہی کا دم بھرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ گمراہی سے محفوظ نہیں ہوتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ قرآن سے ان کا استدلال اور قرآن کی رہنمائی کا ان کا دعویٰ حقیقت پر مبنی بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ قرآن سے اس کا استدلال بالکل غلط زاویہ فکر سے ہوتا ہے وہ پہلے تو اپنے خیالات و نظریات کی ایک عمارت بنا لیتے ہیں پھر اس کی مضبوطی و استواری کے لئے قرآن کا سہارا لیتے ہیں اس طرح وہ قرآنی آیات کو ان کے حقیقی مفہوم و معانی سے الگ کر کے اپنے خیالات و نظریات پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اہل حق اپنے خیالات و عقائد کو قرآن کے تابع بناتے ہیں قرآن کی جو واضح ہدایات ہیں ان کی روشنی میں وہ اپنے اعتقادات کو آراستہ کرتے ہیں اس کے برخلاف گمراہ ذہن و فکر کے لوگ قرآن کو اپنے خیالات و نظریات کا تابع بناتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں قرآن سے استدلال کر کے ہی کہتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان لوگوں کی دلیلیں بایں طور بھی کامل نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے ذہن میں یہ گمراہ کن تصور قائم کرے کہ اصل اور کامل رہنمائی صرف قرآن ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے احادیث اور دیگر ذرائع کو جو قرآن فہمی کے لئے ضروری ہیں بالکل نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ قرآن کا حقیقی مفہوم اور اس کا اصل مقصد منشاء احادیث نبوی، اقوال صحابہ اور ارشادات علماء حقانیین سے ہی واضح ہوسکتا ہے مگر وہ کرتے یہ ہیں کہ نہ تو ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہیں جس سے کلام اللہ کا مقصد واضح ہوتا ہے اور نہ ان حضرات کے فیوض و اقوال سے استفادہ اور ان کی تقلید کرتے ہیں جو کلام اللہ کے سمجھنے اور اس کے اصل مقصد و منشاء تک پہنچنے میں کامل سمجھے جاتے ہیں مثلا صحابہ کرام تابعین اور دیگر علماء امت۔ لہٰذا یہ بات معلوم ہوجانی چاہئے کہ وہ قرآن سے استدلال کرنے اور بزعم خود قرآن کی رہنمائی کرنے کے باوجود گمراہ نہیں ہیں بلکہ ان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ قرآن کی صحیح راہنمائی اختیار نہیں کرتے یا یوں کہئے کہ وہ قرآن کو راہنما اور سرچشمہ ہدایت سمجھ کر نہیں بلکہ اس کو اپنے نظریات و اعتقادات کا تابع بنا کر اختیار کرتے ہیں لہٰذا قرآن کو اختیار کرنے کے باوجود قرآن کی حقیقی منشاء و مقصد اور اس کے اصل مفہوم و معانی تک ان کی رسائی ہی نہیں ہوتی۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت اسی وقت کار آمد ہوتی ہے جب کہ ان ذرائع اور وسائل کو پورے قلبی اعتقاد کے ساتھ اختیار کیا جائے جن پر قرآن فہمی موقوف ہے کہ ان کے بغیر نہ تو قرآن کی حقیقی سمجھ میسر آتی ہے اور نہ قرآن کے اصل مفہوم و منشاء تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور وہ احادیث نبوی ہیں اقوال صحابہ ہیں اور ارشادات ائمہ و علماء ہیں اسی لئے حضرت جنید نے کہا ہے کہ جو شخص قرآن یاد نہ کرے اور احادیث نہ سیکھے اور نہ جانے تو اس کی پیروی نہ کی جائے اور جو شخص ہمارے زمرہ اور ہمارے مسلک میں بغیر علم کے داخل ہوا اور اس نے ہمیشہ اپنے جہل پر قناعت کی تو وہ مسخرہ شیطان ہے کیونکہ ہمارا علم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ساتھ مقید ہے۔ علامہ طیبی نے حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ہوس یعنی بدعتی اور گمراہ لوگ اس بات پر قادر نہیں ہوتے کہ وہ قرآن کے اصلی معنی و مفہوم میں تغیر و تبدل کردیں یا اس میں کوئی کجی پیدا کردیں اس صورت میں لا یزیغ الا ہواء میں بہ کا حرف باء تعدیہ کے لئے ہوگا۔ اس کی زبان سے اور زبانیں نہیں ملتیں، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم باعتبار الفاظ کے بھی فصاحت بلاغت کا وہ نقطہ عروج ہے کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی فصیح وبلیغ عبارت قرآن کی آیات کا مقابلہ نہیں کرسکتی یا اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت مومنین کی زبانوں پر دشوار و مشکل نہیں ہوتی اگرچہ ان کی زبان عربی نہ بھی ہو کیونکہ قرآن کی تلاوت اور اس کی آیات کی قرأت دلوں پر کیف و انبساط کی وہ فضا طاری کردیتی ہے کہ زبان عربی سے نآشنا ہونے کے باوجود الفاظ قرآنی ادائیگی میں ذرا بھی ثقل محسوس نہیں کرتی۔ آیت (ولقد یسرنا القرآن للذکر)۔ اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا۔ علماء اس سے سیر نہیں ہوتے، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علوم و معارف اتنے وسیع اور ہمہ گیر ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے تمام علوم کا احاطہ نہیں کرسکتا اور نہ اس کے نکات و حقائق کا اس انداز سے ادراک کرسکتا ہے کہ اس کی طلب تحقیق و جستجو کسی مرحلہ پر پہنچ کر رک جائے اور اس کا ادراک سیر ہوجائے جیسا کہ جب کوئی شخص کھانے سے سیر ہوجاتا ہے تو اس کی طلب رک جاتی ہے اور خواہش مزید قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے اس کے برخلاف جب علماء قرآن حقائق و معارف میں سے کسی مفہوم پر مطلع ہوجاتے ہیں تو ان کا اشتیاق اور بڑھ جاتا ہے اور ان کی خواہش تلاش و جستجو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ حاصل شدہ مفہوم سے بھی زیادہ کوئی بات معلوم ہوجائے اسی طرح اس طلب، خواہش اور تلاش و جستجو کی کوئی حد قانع نہیں ہوتی۔ پرانا نہیں ہوتا، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو بار بار پڑھنے اور کثرت تلاوت کی وجہ سے قرأت قرآن اور اس میں مذکور احوال و احکام سننے کی لذت اور اس کے کیف میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ کوئی شخص جب بھی قرآن پڑھتا ہے یا اس کی قرأت سنتا ہے تو ہر مرتبہ اسے پہلے کے مقابلہ میں زیادہ حلاوت وکیف محسوس ہوتا ہے خواہ اس کے معنی و مفہوم کو سمجھے یا نہ سمجھے۔
Top