مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2133
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : وكلني رسول الله صلى الله عليه و سلم بحفظ زكاة رمضان فأتاني آت فجعل يحثو من الطعام فأخذته وقلت والله لأرفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم قال إني محتاج وعلي عيال ولي حاجة شديدة قال فخليت عنه فأصبحت فقال النبي صلى الله عليه و سلم : يا أبا هريرة ما فعل أسيرك البارحة . قال قلت يا رسول الله شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته فخليت سبيله قال : أما إنه قد كذبك وسيعود . فعرفت أنه سيعود لقول رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنه سيعود . فرصدته فجاء يحثو من الطعام فأخذته فقلت : لأرفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم قال دعني فإني محتاج وعلي عيال لا أعود فرحمته فخليت سبيله فأصبحت فقال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : يا أبا هريرة ما فعل أسيرك ؟ قلت يا رسول الله شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته فخليت سبيله قال : أما إنه قد كذبك وسيعود . فرصدته الثالثة فجاء يحثو من الطعام فأخذته فقلت لأرفعنك إلى رسول الله وهذا آخر ثلاث مرات أنك تزعم لا تعود ثم تعود قال دعني أعلمك كلمات ينفعك الله بها قلت ما هو قال إذا أويت إلى فراشك فاقرأ آية الكرسي ( الله لا إله إلا هو الحي القيوم ) حتى تختم الآية فإنك لن يزال عليك من الله حافظ ولا يقربنك شيطان حتى تصبح فخليت سبيله فأصبحت فقال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما فعل أسيرك ؟ قلت : زعم أنه يعلمني كلمات ينفعني الله بها فخليت سبيلهقال النبي صلى الله عليه و سلم : أما إنه قد صدقك وهو كذوب تعلم من تخاطب منذ ثلاث ليال . يا أبا هريرة قال لا قال : ذاك شيطان . رواه البخاري
آیۃ الکرسی کو سب سے عظی اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں تو حید، تعظیم الٰہی، اسماء حسنی اور صفات باری تعالیٰ جیسے عظیم وعالی شان مضامین کا بیان ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے رمضان کی زکوٰۃ (یعنی صدقہ عید الفطر) کی نگہبانی اور جمع کرنے پر مجھے مامور فرمایا تاکہ جمع ہونے کے بعد آپ اسے فقراء میں تقسیم فرما دیں چناچہ اس دوران میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دامن اور اپنے برتن میں غلہ بھرنا شروع کردیا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول کریم ﷺ کے پاس لے چلوں گا اور تجھے اس غلط حرکت کی سزا دلواؤں گا اس نے کہا کہ میں ایک محتاج ہوں میرے اوپر میرے اہل و عیال کا نفقہ ہے اور میں سخت حاجتمند ہوں یعنی میرے ذمہ قرض وغیرہ بھی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی یہ خستہ حالت سن کر اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے کہ ابوہریرہ ؓ تمہارے گزشتہ رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ (اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس واقعہ کی خبر دے دی تھی) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے اپنی سخت حاجت اور عیال داری کا رونا رونے لگا اس لئے مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا خبردار رہنا! اس نے اپنے حالات کے اظہار میں تم سے جھوٹ بولا ہے وہ پھر آئے گا اس لئے آئندہ احتیاط رکھنا میں سمجھ گیا کہ ضرور آئے گا چناچہ میں اس کا منتظر رہا وہ آیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے غلہ بھرنا شروع کردیا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب تو میں تجھے رسول کریم ﷺ کے پاس لے جاؤں گا اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دیجئے میں ضرورت مند ہوں میرے اوپر کنبہ کا نفقہ ہے اب آئندہ میں نہیں آؤں گا مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور اس مرتبہ میں نے یہ سلوک اس لئے کیا کہ اس نے آئندہ نہ آنے کا وعدہ کیا تھا ورنہ تو اپنی حاجت و ضرورت کے بارے میں اس کا جھوٹ مخبر صادق یعنی آنحضرت ﷺ کی زبانی معلوم ہو ہی چکا تھا۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے مجھ سے پھر فرمایا کہ ابوہریرہ ؓ تمہارے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ میرے سامنے اپنی شدید ضرورت و حاجت اور عیالداری کا دکھڑا رونے لگا، اس لئے مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے اس کے اس وعدہ پر کہ آئندہ پھر کبھی نہیں آؤں گا اس کو چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہوشیار رہنا! اس نے اس مرتبہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ میں آئندہ نہیں آؤں گا وہ پھر آئے گا چناچہ میں اس کا منتظر رہا اور وہ پھر آیا جب اس نے غلہ بھرنا شروع کیا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں آج تو تجھے ضرور ہی رسول کریم ﷺ کے پاس لے جاؤں گا یہ آخری تیسرا موقع ہے تو نے تو کہا تھا آئندہ نہیں آؤں گا اسی لئے میں نے تجھے اس مرتبہ چھوڑ دیا تھا مگر تو پھر آگیا۔ اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے نفع پہنچائے گا (اور وہ یہ کہ) جب تم (سونے کے لئے) اپنے بستر پر جاؤ تو آیت الکرسی کی آخری آیت (یعنی وہوم العلی العظیم) 2۔ البقرۃ 255) پڑھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک نگہبان فرشتہ رہا کرے گا اور صبح تک تمہارے پاس کوئی شیطان خواہ وہ انسان میں سے ہو یا جنات میں سے دنیوی تکلیف و اذیت پہنچانے کے لئے نہیں آئے گا، میں نے یہ سن کر اسے اس مرتبہ بھی چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے مجھ سے پھر فرمایا کہ تمہارے قیدی کا کیا ہوا، میں نے عرض کیا کہ قیدی نے (جب) مجھ سے یہ کہا کہ وہ مجھے کچھ کلمات سکھائے گا جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے گا (تو میں نے اس مرتبہ بھی اس کو چھوڑ دیا) آپ ﷺ نے فرمایا آگاہ رہو (اگرچہ) اس نے تم سے (ان کلمان کے بارہ میں) سچ کہا ہے (مگر) وہ (دوسری باتوں میں) جھوٹا ہے اور تم جانتے ہو کہ تم ان تین راتوں میں کس سے مخاطب تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا وہ شیطان تھا (جو اس طرح مکر و فریب سے صدقات کے مال میں کمی کرنے آیا تھا)۔ (بخاری)
Top