مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2120
وعن عقبة بن عامر قال : خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم ونحن في الصفة فقال : أيكم يحب أن يغدو كل يوم إلى بطحان أو إلى العقيق فيأتي منه بناقتين كوماوين في غير إثم ولا قطع رحم فقلنا يا رسول الله نحب ذلك قال : أفلا يغدو أحدكم إلى المسجد فيعلم أو يقرأ آيتين من كتاب الله عز و جل خير له من ناقة أو ناقتين وثلاث خير له من ثلاث وأربع خير له من أربع ومن أعدادهن من الإبل . رواه مسلم
قرآن پڑھنے کی فضیلت
حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے۔ تو ہم صفہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ تم میں سے کون شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ ہر روز بطحان یا عقیق کی طرف جائے اور وہاں سے دو اونٹنیاں بڑے کوہان والی بغیر کسی گناہ کے اور بغیر انقطاع صلہ رحمی کے لائے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم سب پسند کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر سن لو کہ تم میں سے جو شخص مسجد میں جاتا ہے اور وہاں کتاب اللہ کی دو آیتیں کسی کو سکھاتا ہے یا خود پڑھتا ہے تو وہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے تین آیتیں اس کے لئے تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چار آیتیں اس کے لئے چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ حاصل یہ کہ آیتوں کی تعداد اونٹنیوں کی تعداد سے بہتر ہے (یعنی پانچ آیتیں پانچ اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چھ آیتیں چھ اونٹنیوں سے بہتر ہیں اسی طرح آگے تک قیاس کیا جائے۔ (مسلم)

تشریح
صفہ وہ سایہ دار چبوترہ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے بنا ہوا تھا اور وہ مہاجرین صحابہ جن کے نہ گھر بار تھا اور نہ بیوی بچے اور عبادت و زہد کے انتہائی بلند مقام پر تھے وہ اسی چبوترہ پر رہا کرتے اور ہمہ وقت ابرگاہ نبوت سے اکتساب فیض کرتے رہتے تھے گویا وہ اسلام کی سب سے پہلی اق امتی اور تربیتی درگاہ تھی جس کے معلم اول خود سرکار رسالت مآب ﷺ تھے اور طلباء کی جماعت صحابہ ؓ پر مشتمل تھی۔ بطحان مدینہ کے قریب ایک نالہ تھا اسی طرح عقیق بھی ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ کے مضافات میں تقریبا چار میل کے فاصلہ پر ہے ان دونوں جگہوں پر اس زمانہ میں بازار لگا کرتے تھے جس میں اونٹوں کی خریدو فروخت ہوا کرتی تھی اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ اہل عرب کے ہاں اونٹ ایک متاع گرانمایہ کے درجہ کی چیز تھی خصوصا بڑے کوہان کے اونٹ کی قدر و قیمت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے بڑے بلیغ اسلوب میں صحابہ سے مذکورہ سوال کر کے اس چیز کی طرف رغبت دلائی جو باقی رہنے والی ہے اور اس چیز سے نفرت دلائی جو دنیاوی اعتبار سے کتنی ہی قدر و قیمت کی کیوں نہ ہو لیکن مآل کار فانی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ آپ نے اونٹ کا ذکر ان کو سمجھانے کے لئے صرف بطریق تمثیل فرمایا ورنہ تو دنیا کی تمام چیزیں بھی ایک آیت کے مقابلہ پر کوئی حقیقت اور قدر و قیمت نہیں رکھتیں۔
Top