دادا کا حصہ
اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا پوتا مرگیا ہے اس کے ترکہ میں سے مجھے کتنا ملے گا آپ ﷺ نے فرمایا چھٹا حصہ جب وہ یہ جواب سن کر) واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ تمہیں چھٹا حصہ اور ملے گا پھر جب وہ واپس ہوا تو آپ ﷺ نے بلایا اور کہا کہ یہ آخر کا چھٹا حصہ تمہارا رزق ہے (احمد ترمذی ابوداؤد) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
یہ آخر کا چھٹا حصہ تمہارا رزق ہے کا مطلب یہ ہے کہ پہلا چھٹاحصہ تو تمہارے ذی فرض ہونے کی وجہ سے تمہیں ملا اور یہ دوسرا چھٹا تمہارے عصبہ ہونے کی حیثیت سے تمہیں ملا ہے اس طرح اس شخص کو گویا کل ترکہ میں سے تہائی ملا مگر آپ ﷺ نے یکبارگی اسے تہائی نہیں دیا تاکہ وہ یہ گمان نہ کرلے کہ پوتے کے ترکہ میں سے دادا کا حصہ ذی فرض ہونے کی حیثیت سے تہائی ہی ہوتا ہے۔ یہ تو حدیث کی وضاحت تھی اب مسئلہ کی نوعیت سمجھئے جو یہ تھی کہ ایک شخص کا انتقال ہوا جس کے وارثوں میں دو بیٹیاں تھیں اور ایک یہ سال یعنی دادا تھا چناچہ میت کے ترکہ میں سے اس کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی ملا باقی ایک تہائی میں سے آدھا یعنی کل ترکہ کا چھٹا حصہ تو دادا کو ذی فرض ہونے کی حیثیت سے ملا اور جو آدھا یعنی کل ترکہ کا چھٹا بچا وہ بھی دادا ہی کو عصبہ ہو نیکی وجہ سے مل گیا گویا ترکہ کی تقسیم یوں ہوئی۔