مشکوٰۃ المصابیح - فرائض کا بیان - حدیث نمبر 3092
وعن هزيل بن شرحبيل قال : سئل أبو موسى عن ابنة وبنت ابن وأخت فقال : للبنت النصف وللأخت النصف وائت ابن مسعود فسيتابعني فسئل ابن مسعود وأخبر بقول أبي موسى فقال : لقد ضللت إذن وما أنا من المهتدين أقضي فيها بما قضى النبي صلى الله عليه و سلم : للبنت النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللأخت فأتينا أبا موسى فأخبرناه بقول ابن مسعود فقال : لا تسألوني ما دام هذا الحبر فيكم . رواه البخاري
بیٹی پوتی اور بہن کے حصے
اور حضرت ہزیل بن شرحبیل تابعی کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسی صحابی سے یہ سوال کیا گیا کہ مثلا زید مرگیا اور اس کے وارثوں میں ایک بیٹی ایک پوتی اور ایک بہن ہے تو زید کی میراث کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا حضرت ابوموسی نے جواب دیا کہ زید کا ترکہ آدھا بیٹی کو اور آدھا بہن کو ملے گا پوتی محروم رہے گی پھر حضرت ابوموسی نے سوال کرنیوالے سے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس جاؤ اور ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھو وہ بھی میرے اس جواب سے اتفاق کریں گے ( یعنی اس مسئلہ کا جو جواب میں نے دیا ہے یہی جواب وہ بھی دیں گے) چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی یہ مسئلہ پوچھا گیا اور اس کا جو جواب حضرت ابوموسی نے دیا تھا وہ بھی انہیں بتایا گیا حضرت عبداللہ بن مسعود نے (مسئلہ اور حضرت ابوموسی کا جواب سن کر) کہا کہ ایسی صورت میں (یعنی ابوموسی نے جو فتوی دیا ہے وہی فتوی اگر میں بھی دوں تو) میں گمراہ سمجھا جاؤں گا اور اپنے کو راہ ہدایت پر نہ پاؤں گا لہذا اس مسئلہ میں، میں وہی فیصلہ دوں گا جو رسول کریم ﷺ کے حکم کے مطابق ہے اور وہ یہ ہے کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور دو تہائی پورا کرنے کے لئے پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا ( یعنی میت کے ترکہ میں سے دو یا دو سے زائد بیٹیوں کو تہائی ملتا ہے اب چونکہ بیٹی ایک ہے اور اس کو آدھا حصہ ملا ہے تو پوتی کو چھٹا حصہ دے کردو تہائی پورا کردیا جائے گا اور جو کچھ باقی بچے (یعنی ایک تہائی) وہ بہن کا ہے یعنی اس حدیث بیٹوں کی موجودگی میں بہن کو عصبہ قرار دو کے مطابق بہن عصبہ ہو کر باقی ماندہ ترکہ لے لے گی چناچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے) راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ جواب سن کر ہم حضرت ابوموسی کے پاس آئے اور انہیں حضرت ابن مسعود کے جواب سے آگاہ کیا حضرت ابوموسی نے فرمایا کہ مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے کیونکہ ابن مسعود نے جو فتوی دیا ہے وہی صحیح اور حق ہے لہذا جب تک تمہارے درمیان یہ عالم (ابن مسعود) موجود ہیں مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھا کرو (بخاری)

تشریح
حضرت عبداللہ بن مسعود کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ میت کے کل ترکہ کے چھ حصے کر کے اس طرح تقسیم کرو کہ یعنی لڑکی کو تین حصے پوتی کو ایک حصہ اور بہن کو دو حصے دو۔
Top