مشکوٰۃ المصابیح - فرائض کا بیان - حدیث نمبر 3091
وعن جابر قال : جاءت امرأة سعد بن الربيع بابنتيها من سعد بن الربيع إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالت : يا رسول الله هاتان ابنتا سعد بن الربيع قتل أبوهما معك يوم أحد شهيدا وإن عمهما أخذ مالهما ولم يدع لهما مالا ولا تنكحان إلا ولهما مال قال : يقضي الله في ذلك فنزلت آية الميراث فبعث رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى عمهما فقال : أعط لابنتي سعد الثلثين وأعط أمهما الثمن وما بقي فهو لك . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث حسن غريب
آیت میراث کا شان نزول
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد بن ربیع کی زوجہ اپنی دونوں بیٹیوں کو جو حضرت سعد بن ربیع سے تھیں لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی ہیں ان کا باپ جو غزوہ احد کے دن آپ کے ہمراہ تھا میدان جنگ میں شہید ہوگیا اور ان کا مال ان کے چچا نے لے لیا ہے (یعنی ان کے باپ کا جو ترکہ ان لڑکیوں کو پہنچتا وہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق سعد کے بھائی نے لے لیا ہے) اور ان کے لئے کچھ بھی مال نہیں چھوڑا ہے اب تاوقتیکہ ان کے پاس مال نہ ہو ان سے کوئی نکاح کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کچھ دنوں کے لئے صبر کرو) ان لڑکیوں کے معاملہ کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا (یعنی ان کے بارے میں جب کوئی وحی نازل ہوگی تو فیصلہ ہوگا) چناچہ کچھ دنوں کے بعد آیت میراث یعنی (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ الخ) 4۔ النساء 11) نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے کسی کو ان لڑکیوں کے چچا کے پاس بھیجا اور بلا کر کہا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے ترکہ میں سے دو تہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دیدو اور جو کچھ باقی بچے وہ تمہارا ہے (احمد ترمذی ابوداؤد ابن ماجہ) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے)

تشریح
آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے اور اسلام کا اجالا پھیلنے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ میت کا ترکہ صرف وہی مرد لیتے تھے جو پورے مرد جوان اور میدان جنگ میں جانے کے قابل ہوں عورتوں، بچوں، ضعیفوں کو میراث نہیں ملتی تھی، مفلس و بےکس بیوہ، معصوم و یتیم بچے اور قابل رحم لڑکیاں روتی چلاتی رہ جائیں مگر ان کی پرواہ کئے بغیر جوان اور قوی و مال دار چچا اور بھائی آتے اور میت کا سب مال لے جاتے۔ ظلم وستم کا یہ طریقہ رائج تھا کہ آنحضرت ﷺ بیواؤں، یتیموں، مسکینوں لڑکیوں اور لا چاروں کے ماواؤ وملجا اور ان کے ہمدرد وغمسار بن کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اسلام کا نور ہر ظلم ہر ستم ہر برائی اور ہر ناانصافی کے اندھیرے کو مٹاتا رہا یہاں تک کہ میراث کے معاملہ میں میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کو ختم کرنے کا وقت بھی آپہنچا چناچہ عورتوں کے حق میں اس صریح ظلم کے خاتمہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ایک صحابی حضرت اوس ابن ثابت انصاری کا انتقال ہوا انہوں نے پسماندگان میں ایک زوجہ ام کمحہ اور تین لڑکیاں چھوڑیں (بعض روایات میں یہ ہے کہ دو بیٹیاں اور ایک چھوٹا لڑکا تھا) حضرت اوس نے اپنے مال و اسباب کا جن دو آدمیوں کو کار پرداز اور وصی بنایا تھا انہوں نے زمانہ جاہلیت کے رائج طریقے کے مطابق اوس کا کل مال ان کے چچا زاد بھائی ( یا بعض روایات کے مطابق ان کے دو حقیقی بھائیوں) خالد اور عرفطہ کو دیدیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اوس کی بےکس بیوہ اور ان کی معصوم بچیاں؟ روتی رہ گئیں مگر انہیں کچھ نہ ملا ظاہر ہے کہ ایسے بےکس و لاچار اور غریب مسلمانوں کا ہمدرد و مددگار اور چارہ گر رحمت دو عالم ﷺ کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا وہ پریشان حال اور گھبرائی ہوئی دربار رسالت میں دوڑی آئیں اور عرض کیا کہ شوہر کے کار پردازوں نے نہ مجھ کو کچھ دیا نہ میری بیٹیوں کو جو کچھ تھا خالد اور عرفطہ کو دے کر یکسو ہوگئے، اب ہمارا کیا ہوگا یہ حال زار سن کر آپ ﷺ کو بہت افسوس ہوا مگر فوری طور پر آپ ﷺ کچھ نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ آپ ﷺ خود مختار حاکم اور اللہ کی خدائی میں شریک تو تھے نہیں اس لئے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کیسے فرما سکتے تھے، تاہم آپ ﷺ نے اوس کی زوجہ کو تسلی دے کر فرمایا کہ اب تو اپنے گھر لوٹ جاؤ اور اس معاملہ میں جب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر ہو انتظار اور صبر کرو، چناچہ آپ ﷺ احکم الحاکمین کے حکم و فیصلہ کے انتظار میں تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ (لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَا ءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا) (4۔ النساء 7) (مردوں کے لئے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو حصہ قطعی ہے) اس آیت کے نازل ہونے سے یہ معلوم ہوگیا کہ میراث کے معاملہ میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ آج تک جو ناانصافی ہو رہی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے اور ترکہ و میراث میں صرف مردوں ہی کا حق نہیں ہے بلکہ عورتوں کا بھی حق ہے، لیکن بہرحال آیت مجمل تھی کہ اس میں صرف عورتوں کا حق ثابت کیا گیا تھا۔ ابھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ترکہ میں مردوں کا کیا حصہ ہے اور عورتوں کو کتنا حصہ ملے گا۔ اسی لئے اس حکم الٰہی کے نزول کے بعد آپ ﷺ نے اوس کے کارپردازوں کے پاس کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کا بھی حق مقرر فرما دیا ہے لیکن ابھی تک مقدار اور حصہ مقرر نہیں فرمایا اس لئے تم اوس کے مال کو حفاظت سے رکھنا اس میں سے ایک حبہ بھی خرچ نہ کرنا عنقریب ہی کوئی ایسا حکم نازل ہونیوالا ہے جس میں حصوں کا تعین کیا جائے گا چناچہ اس قصہ کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ واقعہ پیش آیا جو مذکورہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ قبیلہ خزرج کے ایک جلیل القدر انصاری صحابی حضرت سعد بن ربیع ٣ ھ میں احد کی مشہور لڑائی میں بارے زخم کھا کر شہید ہوگئے ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی نے زمانہ جاہلیت کے رائج دستور کے مطابق حضرت سعد کے کل مال پر قبضہ کرلیا اور زوجہ اور دونوں بیٹیاں محروم رہ گئیں اس طرح حضرت سعد کی زوجہ اور دربار رسالت میں حاضر ہوئیں اور اس ناانصافی کے خلاف مرافعہ پیش کیا، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کچھ دن صبر کرو اللہ تعالیٰ عنقریب آخری اور قطعی فیصلہ صادر فرمانیوالا ہے چناچہ کچھ دنوں کے بعد یہ آیت میراث نازل ہوئی۔ (یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین) (آخری رکوع تک النساء ٤ ١١) (یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے) اس آخری فیصلہ کے بعد جب تمام ورثاء کے حصوں کا تعین ہوگیا تو آپ ﷺ نے سعد بن ربیع کے بھائی کے پاس کہلا بھیجا کہ حکم الٰہی کے پیش نظر اپنے بھائی کے ترکہ میں سے دو تہائی لڑکیوں کو دیدو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو اس کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ تم لے لو۔ یعنی سعد نے جو کچھ چھوڑا ہے پہلے اس کے چوبیس حصے کرلو پھر ان چوبیس حصوں میں سے آٹھ آٹھ حصے دونوں لڑکیوں کو دو تین حصے ان کی ماں کو دو اور باقی پانچ حصے تم لے لو اس طرح اس تقسیم کو یوں ظاہر کریں گے۔
Top