مشکوٰۃ المصابیح - فرائض کا بیان - حدیث نمبر 3075
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن مات وعليه دين ولم يترك وفاء فعلي قضاؤه . ومن ترك مالا فلورثته . وفي رواية : من ترك دينا أو ضياعا فليأتني فأنا مولاه . وفي رواية : من ترك مالا فلورثته ومن ترك كلا فإلينا
میت کا ترکہ اس کے ورثاء کا حق ہے
حضرت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کے حق میں خود ان سے بھی زیادہ عزیز ہوں یعنی دین و دنیا کے ہر معاملہ میں ایک مسلمان اپنے اوپر خود جتنا شفیق و مہربان ہوسکتا ہے میں اس پر اس سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہوں اسی لئے ان کے قرضوں کو ادا کرنے میں زیادہ حق دار ہوں لہذا جو شخص یعنی مسلمان مرجائے اور اس پر قرض ہو اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہوسکتا ہو تو اس کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو شخص اتنا مال چھوڑ جائے جو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کی کی ہوئی وصیت کی شرعی تکمیل کے بعد بھی بچ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص قرض دار یا عیال دار مرجائے اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کے قرض کی ادائیگی ہو سکے یا اس کے عیال کی پرورش ہو سکے تو اس کا وکیل یا وصی میرے پاس آئے میں اس کا انتظام کروں گا یعنی میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اس کے عیال کی نگہداشت وغم خواری کروں گا۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا ہے اور جو بھاری چیز یعنی قرض اور عیال چھوڑ کر مرے تو اس کا انتظام کرنا میرے ذمہ ہے ( بخاری ومسلم)

تشریح
شروع میں آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ اگر کوئی شخص مرتا جس کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کے ترکہ میں اتنا مال نہ ہوتا جو اس قرض کی ادائیگی کے لئے کافی ہوتا ہے تو آپ ﷺ اس کے جنازہ کی نماز پڑھنے سے احتراز فرماتے لیکن جب حق تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی اور آپ ﷺ کو کشائش مال کی نعمت میسر ہوئی تو آپ ﷺ نے یہ معمول بنا لیا کہ جو شخص قرضدار مرجاتا آپ ﷺ اس کا قرض ادا کرتے اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھتے۔ یہ بات حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت سے مفہوم ہوتی ہے جو باب الافلاس والانظار کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے اور یہ گویا آنحضرت ﷺ کے اس بےپناہ جذبہ شفقت و مہربانی اور کمال رحمت ہمدردی کا مظہر ہے جو آپ ﷺ تمام مسلمانوں کے تئیں رکھتے تھے۔
Top