مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5312
عن أبي واقد الليثي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما خرج إلى غزوة حنين مر بشجرة للمشركين كانوا يعلقون عليها أسلحتهم يقال لها ذات أنواط . فقالوا يا رسول الله اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحان الله هذا كما قال قوم موسى ( اجعل لنا إلها كما لهم آلهة ) والذي نفسي بيده لتركبن سنن من كان قبلكم . رواه الترمذي .
ایک واقعہ ایک پیشین گوئی
حضرت ابو واقد لیثی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ فتح مکہ کے بعد جب غزوہ حنین کے لئے روانہ ہوئے تو راستہ میں آپ ﷺ کا گزر مشرکوں کے ایک درخت پر ہوا جس پر وہ مشرک اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے اور پوجا کے طور پر اس درخت کے گرد طواف کرتے اور تعظیما اس کی طرف منہ کر کے بیٹھا کرتے۔ اس درخت کا نام ذات انواط تھا۔ آنحضرت ﷺ کے ہمراہیوں میں ایسے مسلمانوں کی تعداد بھی شامل تھی جو نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اسلامی احکام و شرائع اور دینی تعلیمات سے زیادہ واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے شریک بیزاری اور توحید میں کامل مرتبہ نہیں رکھتے تھے، انہی مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے اس درخت کو دیکھ کر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے لئے بھی کوئی ایسا درخت مقرر کر دیجئے جس پر ہم اپنے ہتھیار لٹکایا کریں اور اس کو ذات انواط کہا کریں جیسا کہ مشرکوں نے اس درخت کو اپنے لئے ذات انواط بنا رکھا ہے وار اس پر ہتھیار لٹکاتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ان لوگوں کی یہ عجیب و غریب خواہش سن کر از راہ حیرت وتعجب فرمایا کہ سبحان اللہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ یہ بات تم ایسی کہہ رہے ہو جیسا کہ موسیٰ کی قوم یہودیوں نے اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک ایسا معبود یعنی بت بنا دیجئے جیسا کہ کافروں کے معبود ہیں تاکہ جس طرح وہ کافر اپنے بتوں کو پوجتے ہیں اسی طرح ہم اپنے اس بت کو پوجا کریں۔ پھر حضور ﷺ نے بطور تنبیہ یہ فرمایا ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان لوگوں کے راستے پر چلنا شروع کردو گے جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ (ترمذی)

تشریح
انواط دراصل نوط کی جمع ہے جو مصدر ہے اور جس کے معنی لٹکانے کے ہیں، چونکہ اس درخت پر ہتھیار لٹکائے جاتے تھے اس لئے اس کا نام ذات انواط ہوگیا اور یہ نام خاص اسی درخت کا تھا۔ جو تم سے پہلے گزرے ہیں سے مراد گزشتہ امتوں کے لوگ یعنی یود و نصاری وغیرہ ہیں حدیث کے اس آخری جملے کے ذریعے حضور ﷺ نے گویا ان لوگوں کے تئیں ناراضگی وبے اطمینانی کا اظہار فرمایا کہ اگر تم لوگ ایسی ہی بات کہتے اور کرتے رہے تو عجب نہیں کہ گمراہی اور حد سے بڑھ جانے کے اس راستہ پر جا پڑو جس کو پچھلی امتوں کے لوگوں نے اختیار کیا تھا اور اللہ کے مبغوض بندے قرار پائے تھے۔
Top