مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5309
شہادت عثمان ؓ
حدیث کی

تشریح
میں تین ایسے واقعات کا ذکر آیا ہے جو اسلامی تاریخ میں نہایت روح فرسا نتائج کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں اور جن کی طرف حضور ﷺ نے گویا پہلے ہی اشارہ فرما دیا تھا، یہ تینوں واقعات ہیں شہادت عثمان، جنگ جمل اور جنگ صفین، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں واقعات پر مختصر انداز میں روشنی ڈالی جائے۔ چناچہ سب سے پہلے حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے واقعہ اور اس کے پس منظر کو بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنی ؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے بعد مسلمانوں کے امیر وحکمران بنے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت تک مسلمانوں کے عام دینی و سیاسی اور ملکی وملی معاملات ایک مستحکم خلافت کے تحت عمدگی و خوبی کے ساتھ چلتے رہے اور ان عوامل و اسباب کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا جو خلافت کے استحکام اور ملی نظم و اتحاد کے خلاف کسی محاذ آرائی کا باعث بنتے، حضرت عثمان غنی ؓ کی خلافت کا ابتدائی نصف حصہ بھی اسی نہج پر استوار رہا لیکن اس کے بعد کچھ ایسے اندرونی عوامل و اسباب پیدا ہوگئے اور اس کے ساتھ بعض ایسی بیرونی سازشیں حرکت میں آگئیں جن سے حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا استحکام ڈانواں ڈول ہوگیا اور ملک وملت کے دینی و سیاسی معاملات پر حضرت عثمان ؓ کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ حضرت عثمان ؓ کے جہاں بیشمار اوصاف ان زندگی میں مابہ الامتیاز حیثیت رکھتے وہاں ان میں ایک بڑا وصف علم ومروت، چشم پوشی و درگزر اور خاص طور اپنے عزیز واقا رب کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ بھی تھا، انہوں نے اخلاص نیت کے ساتھ اپنے ان عزیز واقا رب کو اونچے عہدوں اور مناصب پر فائز کیا جس کو وہ ان عہدوں کے لئے واقعۃً اور دیانۃً اہل اور مناسب جانتے تھے، نیز وہ چونکہ ذاتی طور پر بہت مالدار تھے اس لئے اپنے مال و دولت کے ذریعے اپنے عزیزوں کی خبر گیری رکھتے تھے اور ان کی مالی معاونت فرمایا کرتے تھے ادھر مسلمانوں کے ذہنی وفکری حالات میں بھی زمانہ کے تغیرات اور وسیع تر ماحول میں عالم خلط ملط کے اثرات سے کافی حد تک تبدیلی آگئی تھی، چناچہ کچھ مسلمانوں میں اور خاص طور پر ان مسلمانوں میں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے اور جو قدیم قبائلی وعلاقائی عصبیت کی گرفت سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، یہ شکوک پیدا ہونے شروع ہوگئے کہ امیر المومنین اپنی خلافت کے ذریعے اپنے قبیلے اور اپنے خاندان کے لوگوں ہی کو منفعت پہنچا رہے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے لوگ ابھی بہت کم تھے اور عام لوگوں میں حضرت عثمان ؓ کی طرف سے کوئی بدگمانی اور شکایت پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن عین اسی وقت عبداللہ بن سبا نے اپنی مکر و سازش کا جال پھیلانے کا کام شروع کردیا، عبداللہ بن سبا شہر صنعاء کا رہنے والا ایک یہودی تھا اس نے حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمان ہی دنیا کی سب سے فاتح قوم بن گئی ہے اور اس قوم کو بہت زیادہ مال و حشمت حاصل ہے، مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمان بن کر رہنے لگا، اس کا اصل مقصد محض دولت و حشمت کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ذہن میں مسلمانوں کی طاقت کمزور کرنے اور اسلام کی شوکت و حشمت کو ختم کرنے کی سازش بھی پنہاں رکھتا تھا، چناچہ وہ مدینہ میں اپنی سازش کی تکمیل میں مصروف ہوگیا، وہاں جب کچھ کامیابی نہیں ہوئی تو بصرہ پہنچا۔ بصرہ میں اس نے مختلف مکر و فریب اور ترغیبات و لالچ کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور طرح طرح بد عقیدگیوں کا پر چار شروع کیا، جب بصرہ کے گورنر کو اس کے حالات اور اس کی اصل حقیقت کا علم ہوا اور انہوں نے باز پرس کی وہاں اپنے حامیوں کی ایک جماعت کا چھوڑ کر کوفہ آگیا جہاں پہلے ہی سے ایک جماعت حضرت عثمان ؓ اور ان کے عامل کے خلاف تھی یہاں عبدللہ بن سباء کو اپنی سازش پھیلانے کا زیادہ موقع ملا اس کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی دوسری طرف وہ حضرت عثمان غنی ؓ سے کوئی ذاتی عداوت وعناد بھی رکھتا تھا اور ان سے انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا کچھ دنوں کے بعد اس کو کوفہ بھی چھوڑنا پڑا اور پھر دمشق پہنچ گیا دمشق میں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلد ہی اسے یہاں سے باہر شہر بدر ہونا چپڑا، یہاں سے نکل کر وہ مصر پہنچا اور وہاں اس نے زیادہ ہوشیاری اور اطاعت کے ساتھ کام شروع کیا اور ایک باقاعدہ خفیہ جماعت کی تنظیم کی چونکہ اہل بیت کی محبت اور حضرت علی ؓ کے ساتھ تعلق کا دعویٰ بھی کرتا تھا لہٰذا اس فریب آویز دعویٰ کے ذریعے مصر میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے گرد جمع ہونا شروع کردیا یہاں بیٹھ کر اس نے اسلامی سلطنت کے ان تمام علاقوں سے رابطہ قائم کیا، جہاں جہاں وہ گیا تھا اور اپنے کچھ حامیوں کی جماعت چھوڑ کر آیا تھا اپنے ان حامیوں کے ذریعے ایک طرف تو اس نے مختلف علاقوں سے اہل مدینہ کے پاس یہ شکایتیں پہنچوائیں کہ عثمان کے عامل ماموں اور گورنر اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں پر سخت ظلم وستم کر رہے ہیں دوسری طرف اس نے عام مسلمانوں میں حضرت عثمان ؓ کی خویش پروری اور ان کے عاملوں اور گورنروں کے ظلم وستم کے فرضی واقعات کا پروپیگنڈہ کر کے خلافت عثمان کے خلاف ناراضگی اور شورش پیدا کردی، جب حضرت عثمان ؓ کو اس شورش کا علم ہوا تو انہوں نے صورت حال کی طرف توجہ دی اور اپنے عاملین اور مشیروں کو جمع کر کے مشورہ کیا، کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ جو افراد یہ شورش پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کردیا جائے اور مجرمین کے ساتھ کوئی رعایت روا نہ رکھی جائے لیکن حضرت عثمان ؓ نے اپنی مروت وبردباری کی وجہ سے اس مشورے کو قبول نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں قرآن و حدیث کے حکم کے مطابق کسی شخص کو اس وقت تک قتل نہیں کرسکتا جب تک کہ علانیہ مرتد ہوتے نہ دیکھ لوں اور اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے غرض معمولی تدابیر کے علاوہ سازشیوں کے مخالف کوئی سخت کار روائی نہیں ہوئی جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہوگئے اور وہ نہایت زور وشور کے ساتھ اپنی تخریبی کار روائیوں میں مصروف رہے اور اکثر علاقوں خاص طور پر مصر میں شورش پسندوں کے گروہ کے گروہ تیار ہوگئے جن کو مدینہ دھاوا بولنے اور حضرت عثمان ؓ کو قتل کردینے کی تربیت دی جانے لگی۔ ادھر عبداللہ بن سبا کے لوگ مختلف علاقوں کے گورنروں وعاملوں کے خلاف جو فرضی شکایتیں اہل مدینہ کے پاس بھتیجے تھے ان کو اہل مدینہ صحیح سمجھ کر حضرت عثمان ؓ سے ان گورنروں اور عاملوں کی معزولی کا مطالبہ کرتے تھے، مگر حضرت عثمان ؓ کو تفتیش و تحقیق سے چونکہ معلوم ہوجاتا تھا کہ تمام شکایتیں فرضی ہیں اس لئے وہ ان گورنروں اور عاملوں کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ میں حضرت عثمان ؓ اور ان کی حکومت کے خلاف بدگمانیوں اور شکایتوں کی ایک فضا بن گئی اور جا بجا خلیفہ وقت کی نسبت سر گوشیاں ہونا شروع ہوگئیں بلکہ لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں، یہ وہ زمانہ تھا جب عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اور تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں پہنچ چکے تھے اور ان کے حامیوں کے گروہ ہر جگہ پیدا ہوچکے تھے جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کی سازش آخری مرحلوں میں پہنچ گئی ہے، تمام علاقوں میں خلافت عثمان کے خلاف بدگمانیوں اور شکایتوں کا جال پھیلا دیا گیا ہے اور ہر جگہ میرے حامیوں کی خاصی تعداد جمع ہوگئی ہے تو اس نے ہر ہر علاقے سے اپنے مسلح آدمیوں کی بڑی تعداد، چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اور خفیہ طور پر مدینہ روانہ کی اور پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ والوں نے دیکھا کہ باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوگئی ہے۔ عبداللہ بن سبا نے حضرت علی ؓ کی محبت اور ان کی خلیفہ بنانے کا دعویٰ کر کے جن لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا ان تک اس نے حضرت علی ؓ کا ایک جعلی خط بھی گشت کرایا تھا جس میں گویا انہوں نے باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا، چناچہ بلوائیوں نے مدینہ پہنچ کر حضرت علی ؓ سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے اس کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے سے صاف انکار کردیا، انہوں نے ان سے اسبات کا انکار کیا کہ میں نے تم لوگوں کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے کبھی بھی تم لوگوں کو خط نہیں لکھا۔ حضرت علی ؓ نے بلوائیوں کو ان کی سازش سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی، دوسرے صحابہ نے اس معاملے کو سلجھانے کی سعی کی، حضرت عثمان ؓ نے بلوائیوں کے مطالبے پر مصر کے گورنر کو معزول بھی کردیا لیکن اصل تحریک کا مقصد ہی محض شورش و بغاوت پھیلانا تھا اس لئے بلوائیوں کے لیڈروں نے صورت حال کو معمول پر لانے اور شورش کو دبانے کی تمام تدابیر کو ناکام بنادیا، حضرت عثمان ؓ نے یہ رنگ اور مدینہ کے گلی کوچوں کو بلوائیوں سے دیکھ کر مختلف بلاد اسلامیہ کے گورنروں کو خط لکھ کر امداد طلب کی اور ان بلاد سے سرکاری فوجیں بلوائیوں کی سرکوبی کے لئے مدینہ کی طرف روانہ بھی ہوگئیں لیکن بلوائیوں نے ان فوجوں کے آنے سے پیشتر ہی حضرت عثمان ؓ کے مکان کو گھیر کر ان کا محاصرہ کرلیا، اس موقع پر یہ ظاہر کردینا نہایت ضروری ہے کہ اس صورت حال کو بگاڑنے میں بڑا دخل مروان بن حکم کا تھا جو حضرت عثمان ؓ کا چچا زاد بھائی اور ان کا میر منشی و وزیر تھا، اس نے حضرت عثمان ؓ کی مروت وچشم پوشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی بد اطواریوں، جعل سازیوں اور عوام مخالف اقدامات کے ذریعے عام مسلمانوں اور خصوصا اہل مدینہ کو بہت زیادہ برہم کر رکھا تھا، اہل مدینہ نے اس موقع پر فائدہ ضرور اٹھانا چاہا کہ مروان کے خلاف وہ بھی بلوائیوں کے شریک حال ہوگئے لیکن ان کا مطالبہ صرف مروان کو اس کے عہدے سے معزول کر کے اہل مدینہ کے سپرد کردینے کا تھا اور اگر حضرت عثمان ؓ اہل مدینہ کا مطالبہ مان لیتے تو شاید بلوائیوں کو اپنے اصل مقصد میں زیادہ کامیابی نہ ہوتی کیونکہ پھر مدینہ کے لوگ بلوائیوں کی حمایت ترک کر کے پوری طاقت سے ان کا مقابلہ کرتے لیکن حضرت عثمان ؓ کی مروت کو گوارہ نہ کیا کہ وہ مروان کو اہل مدینہ کے حوالے کر کے ان کے ہاتھوں اس کے قتل ہوجانے کا منظر دیکھیں بہرحال جب بلوائیوں نے زیادہ شورش برپا کی یہاں تک کہ ان کے مکان میں پانی جانے تک پر پابندی عائد کردی اور جب حضرت علی ؓ و دیگر جلیل القدر صحابہ کو یہ معلوم ہوا کہ اب بلوائی حضرت عثمان ؓ کے مکان کا دروازہ توڑ کر ان کو قتل کردینا چاہتے ہیں تو ان سب سے اپنے صاحبزادوں اور دوسرے متعدد آدمیوں کو حضرت عثمان ؓ کی حفاظت پر معمور کیا اور ان لوگوں نے بڑی جوان مردی سے بلوائیوں کا مقابلہ کر کے حضرت عثمان ؓ کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور دروازے پر جم کر کھڑے ہوگئے، کچھ حضرات نے ان کے مکانوں کی چھتوں پر پہرہ دینا شروع کیا بلوائیوں نے یہ سوچ کر کہ باہر سے سرکاری فوجوں کی آمد سے پہلے بہت جلد حضرت عثمان ؓ کا کام کسی نہ کسی طرح تمام کردینا چاہئے یہ چال چلی کہ خفیہ طور پر ایک پڑوسی کے مکان میں گھس گئے اور دیوار پھاند کر حضرت عثمان ؓ کے مکان میں داخل ہوگئے اس وقت حضرت عثمان ؓ کے جو محافظین تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے باغیوں کی کوشش اور نقل حرکت کی نگرانی کر رہے تھے اور کچھ دروازے پر جمے ہوئے بلوائیوں کو اندر گھسنے سے روک رہے تھے، مکان کے اندر صرف عثمان ؓ تھے اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ ؓ، بلوائیوں نے گھستے ہی حضرت عثمان ؓ پر تلوار چلائی جو قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے، ان کی بیوی نے فوراً آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں، پھر تمام بلوائیوں نے زبردست ریلے کے ذریعے مکان کے اندر دھاوابول دیا، گھر کا سارا سامان لوٹ لیا اور بڑی وابتری مچائی، یہ المناک حادثہ ١٨ ذی الحجہ ھ جمعہ کے روز ہوا تین روز تک حضرت عثمان ؓ کی لاش بےگور و کفن پڑی رہی، پورے شہر پر بلوائیوں کا تسلط تھا، آخر بعض حضرات نے کوشش کرے کے تین دن کے بعد رات کے وقت ان کی نعش مبارک کو بغیر غسل دئیے ہوئے کپڑوں میں دفن کردیا، نماز جنازہ حضرت جبیر ابن مطعم نے پڑھائی اور حضرت عثمان ؓ کی اس ہولناک اور مظلومانہ شہادت کے ذریعے ان کا دور خلافت ختم ہوگیا اور بدبخت یہودیوں کی ایک تباہ کن سازش کو کامیاب ہونے کا موقع مل گیا۔
Top