مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5287
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا حتى يأتي يوم لا يدري القاتل فيم قتل ؟ ولا المقتول فيم قتل ؟ فقيل كيف يكون ذلك ؟ قال الهرج القاتل والمقتول في النار . رواه مسلم .
فتنوں کی شدت کی انتہا
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے پوری دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک لوگوں پر ایسا دن یعنی بدامنی و انتشار فتنہ و فساد کی شدت انتہا سے بھرا ہوا وہ دور نہ آجائے جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے مقتول کو کیوں قتل کیا اور نہ مقتول یا اس کے ورثاء متعلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔ پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہوگا یعنی اس کی وجہ کیا ہوگی کہ قتل کا سبب نہ قاتل کو معلوم ہوگا نہ مقتول کو؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہرج کے سبب، نیز قاتل و مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کے دل و دماغ سے فتنہ و فساد اور تقل و غارت گری کی برائی کا احساس اس طرح ختم ہوجائے گا کہ نہ تو قاتل بتاسکے گا کہ اس نے مقتول کا خون کس مقصد سے بہایا ہے اور نہ مقتول اور اس کے ورثاء ومتععلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کی جان کس دنیاوی غرض ومقصد کے تحت یا کس شرعی وجہ کی بناء پر ماری گئی ہے ایسا اندھیرا پھیل جائے گا کہ بس شکوک و شبہات اور ذرا ذرا سے واہموں پر انسان کا قیمتی خون بےدریغ بہایا جانے لگے گا اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ کون شخص حق پر ہے اور کون باطل پر، بلا تشخیص وتمیز جو جس کو چاہے گا موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ موجودہ زمانے کے حالات دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ صورت حال کا ظہور نہیں ہوگیا ہے۔ ہرج کے سبب سے کا مطلب یہ ہے کہ اس اندھے قتل و غارت گری کا باعث جہالت ونادانی کی وہ تاریکی ہوگی جو پورے ماحول کو فتنہ و فساد اور بدامنی سے بھر دے گی، شرارت پسندوں اور بلوائیوں کا عروج ہوگا، اخلاقی سرکاری قوانین کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ اچھے برے کاموں کی تمیز مٹ جائے گی، حق و باطل باہم خلط ملط ہوجائیں گے او دل و دماغ سے انسانی خون کی حرمت کا احساس مٹ جائے گا۔ دونوں دوزخ میں جائیں گے سے یہ واضح ہوا کہ نیت کا فتور اس قدر عام ہوجائے گا کہ بظاہر مقتول اور مظلوم نظر آنے والا شخص بھی اپنے اندر ظلم و طغیان کا فتنہ چھپائے رہا ہوگا۔ اس کا مقتول ومظلوم ہونا اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ وہ واقعۃ کسی ظالمانہ قتل کا شکار ہوا ہے بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ وہ موقع پر چوک گیا اور خود وار کرنے سے پہلے دوسرے کے وار کرنے کا شکار ہوگیا۔ چناچہ مذکورہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل تو دوزخ میں اس لئے جائے گا کہ وہ واقعۃ قتل عمد کا گناہ گار ہوا ہے اور مقتول اس وجہ سے دوزخ میں جائے گا کہ وہ خود بھی اس قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس کو بتاہ وہلاک کرنے کی خواہش و ارادہ رکھتا تھا اور چونکہ آدمی کسی گناہ کا عزم رکھنے کی وجہ سے بھی ماخوذ ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی دوزخ کا مستوجب قرار دیا جائے گا لیکن واضح رہے کہ یہ حکم جہالت کے طاری ہونے اور حق و باطل کے درمیان تمیز مفقود ہونے کی صورت کا ہے۔ ہاں اگر اس مقتول کی مذکورہ نیت و ارادہ کا تعلق جہالت ونادانی اور عدم تمیز سے نہ ہو بلکہ اس بات سے ہو کہ وہ بسبب اشتباہ، خطاء اجتہادی میں پڑگیا ہو تو اس پر مذکورہ حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ وہ مقتول اپنے قاتل کے تئیں جو عداوت ونفرت رکھے ہوئے تھا اور اس کو قتل کے ساتھ مقتول بھی مستوجب عذاب ہوگا لیکن اگر وہ مقتول اس جہالت ونادانی کی بنا پر نہیں بلکہ وہ از روئے دین و دیانت اس شخص یعنی قاتل کو قتل کرنے کا عزم رکھتا تھا نیز اس عزم تک وہ دین و شریعت کے اپنے علم کی روشنی میں غور فکر کرنے کے بعد اور نیت کے اخلاص کے ساتھ پہنچا تھا اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اس عزم تک اس کا پہنچنا غیر صحیح کیوں نہ ہو۔ اس کو محض اس عزم کی وجہ سے مستوجب عذاب قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اجتہاد اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کی کوشش میں خطا کر جانے والا شخص عند اللہ ماخوذ قرار نہیں دیا جاتا۔ واضح رہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی اس مشہور اور صحیح مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی گناہ کی نیت کرے اور اس نیت پر قائم رہے تو وہ گنہگار ہی کے حکم میں ہوگا، اگرچہ وہ اپنے اعضاء اور زبان سے عملی طور پر اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔
Top