مشکوٰۃ المصابیح - فئی تقسیم کر نے سے متعلق - حدیث نمبر 3965
عن المغيرة قال : إن عمر بن عبد العزيز جمع بني مروان حين استخلف فقال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كانت له فدك فكان ينفق منها ويعود منها على صغير بني هاشم ويزوج منها أيمهم وإن فاطمة سألته أن يجعلها لها فأبى فكانت كذلك في حياة رسول الله صلى الله عليه و سلم في حياته حتى مضى لسبيله فلما ولي أبو بكر علم فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه و سلم في حياته حتى مضى لسبيله فلما أن ولي عمر بن الخطاب عمل فيها بمثل ما عملا حتى مضى لسبيله ثم اقتطعها مروان ثم صارت لعمر بن عبد العزيز فرأيت أمرا منعه رسول الله صلى الله عليه و سلم فاطمة ليس لي بحق وإني أشهدكم أني رددتها على ما كانت . يعني على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبي بكر وعمر . رواه أبو داود
قضیہ فدک وغیرہ کی تفصیل
اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیز ابن مروان ابن حکم (رح) خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ رسول کریم ﷺ فدک ( کی زمین و جائداد) پر اپنا ذاتی حق رکھتے تھے جس کے محاصل ( آمدنی۔ وپیداوار) کو آپ ﷺ ( اپنے اہل و عیال و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اسی میں سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں ( کی امداد و اعانت پر خرچ کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے اور بےشوہر عورتوں اور بغیر زن مردوں کی شادی کرتے تھے! ( ایک مرتبہ) حضرت فاطمہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ فدک ( کی زمین و جائداد دیجئے لیکن آپ ﷺ نے ان کی درخواست کو رد کردیا، رسول کریم ﷺ کی زندگی میں اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خلیفہ بنایا گیا تو ان کا معمول بھی وہی رہا جو رسول کریم ﷺ کا اپنی حیات مبارکہ میں رہا تھا یعنی آنحضرت ﷺ کے مذکورہ معمول کی طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی فدک کے محاصل کو آنحضرت ﷺ کے اہل و عیال اور بنو ہاشم کے بچوں پر اور نادار مردوں و عورتوں کی شادی میں خرچ کیا کرتے تھے) یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اللہ کو پیارے ہوگئے اور ( ان کے بعد) جب حضرت عمر ابن خطاب ؓ کو خلیفہ بنایا گیا تو اس سلسہ میں ان کا بھی عمل وہی رہا جو ان دونوں ( یعنی آنحضرت ﷺ اور ابوبکر) کا رہا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور پھر مروان نے ( حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے زمانے میں یا اپنی حکمرانی کے دور میں) اس ( فدک) کو اپنی ( اور اپنے وارثین کی) جاگیر قرار دیا چناچہ ( اب) وہ جاگیر عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان کی ہوگئی ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جس چیز کو رسول کریم ﷺ نے ( اپنی بیٹی) فاطمہ ؓ کو نہیں دیا اس کا مستحق میں بھی نہیں ہوسکتا، لہٰذا میں تمہیں ( اپنے اس فیصلہ کا) گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فدک کو اس کی اسی حیثیت پر واپس کردیا ہے۔ جس پر وہ تھا یعنی رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ( جس طریقہ پر اس کے محاصل کو خرچ کیا جاتا تھا اب پھر اسی طریقہ پر خرچ کیا جائے گا اور فدک کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بنے گا۔ ( ابوداؤد)

تشریح
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے بنو نضیر، فدک اور خیبر کی زمین، جائدادیں آنحضرت ﷺ کی ذاتی ملکیت تھیں چونکہ وہ زمین جائدادیں آنحضرت ﷺ کے بعد بھی باقی رہیں تھیں اس لئے آپ ﷺ کے اہل بیت اور خاندان کے کچھ افراد نے ان پر اپنی میراث کا دعویٰ کیا اور خلقت سے اس کا مطالبہ کیا، پھر ان میں آپس میں بھی کچھ اختلافات پیدا ہوئے اس طرح ان زمین جائدادوں کا قصہ بڑا عجیب و غریب ہوگیا اگرچہ وہ ایک وقتی قضیہ تھا جس کی بنیاد کسی غلط جذبہ پر نہیں تھی لیکن پھر بھی بعد کے زمانوں میں کم فہم اور کج رو لوگوں نے اس سے غلط نتائج اخذ کرنے شروع کردیئے اور ایسے ایسے افسانے تراشے جن سے دوسرے لوگوں کے ذہن بھی فاسد ہوئے اس سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتب صحاح سے منتخب کر کے اس قضیہ کی کچھ تفصیل اور اس کے بارے میں کچھ باتیں نقل کردی جائیں۔ صحیح بخاری میں حضرت مالک ابن عوس ابن حدثان سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المؤ منین حضرت عمر ابن خطاب ؓ نے مجھ کو اپنے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا غلام یرفاء آیا اور کہا کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان ابن عفان حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓ دروازہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور حاضری کی اجازت چاہتے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ آجا نے دو وہ سب حضرات آگئے، تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آیا اور کہا کہ ( حضرت عباس اور حضرت علی ؓ ( حاضری کی) اجازت چاہتے ہیں، اگر حکم ہو تو آنے دیا جائے حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ آنے دو جب وہ بھی آگئے تو حضرت عباس ؓ نے کہا کہ امیر المؤمنین! ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئے ( یعنی میرے اور علی کے قضیہ کو نمٹائیے) یہ بنو نضیر کے اس مال و جائداد کے بارے میں جھگڑے کی صورت اختیار کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے حق میں فئی قرار دیا تھا۔ پھر حضرت عباس اور حضرت علی ؓ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے، وہاں موجود دوسرے لوگوں ( یعنی حضرت عثمان ؓ وغیرہ) نے بھی کہا کہ ہاں امیرالمؤمنین! ان دونوں کے معاملہ کا تصفیہ کر دیجئے اور ان کو ایک دوسرے ( کے جھگڑے) سے نجات دلائے (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ذرا صبر و سکون سے کام لو، میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ ہم یعنی انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ( یعنی ہمارا چھوڑا ہوا مال کسی کا ورثہ نہیں ہوتا) ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ حاضرین نے کہا کہ ہاں! ( ہم کو یاد ہے) بیشک آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا؟ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ نے فرمایا کہ ہاں! ( ہم کو بھی یاد ہے) آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تو میں تم کو اس بات سے ( بھی آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے بارے میں اپنے رسول ﷺ کو وہ خاص خصوصیت عطا کی تھی جو آپ ﷺ کے علاوہ اور کسی کو عطا نہیں کی پھر حضرت عمر ؓ نے یہ آیت (مَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59۔ الحشر 7) آخر تک پڑھی اور فرمایا کہ۔ پس یہ سارا مال آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص تھا، لیکن اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے اس مال کو تمہارے پاس جمع نہیں کیا اور نہ اس کے ذریعہ تم پر کوئی ایثار کیا، ( بلکہ) آپ ﷺ وہ مال تمہیں ( ہی) دیا کرتے تھے اور تمہارے درمیان تقسیم کرتے تھے، پھر جو کچھ بچتا آپ ﷺ اس میں سے اپنے اہل و عیال کا خرچ چلاتے اس کے بعد بھی جو بچ جاتا اس کو آپ ﷺ نیک کاموں ( جیسے فقراء و مساکین کی امداد و اعانت) اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح ( جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری) میں صرف کرتے۔ رسول کریم ﷺ کا اپنی زندگی کے آخر تک یہی معمول رہا، پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ کہہ کر کے میں رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ اس مال کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے خرچ و تصرف کا وہی نظام باقی رکھا جو آنحضرت ﷺ نے جاری کیا۔ ( اس موقع پر) حضرت علی وحضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم اس وقت حضرت ابوبکر ؓ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس بارے میں ابوبکر صدیق ؓ صحیح راستے پر نہیں ہیں، حالانکہ تم جو کہتے تھے ویسا نہیں تھا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے، پھر جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ اللہ کو پیارے ہوگئے ( اور میں خلیفہ بنا) تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ کا خلیفہ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ولی ( جانشین) ہوں، اس لئے میں نے اس مال و جائداد کو دو سال تک اپنے اختیار و قبضے میں رکھا اور اس کے خرچ و تصرف کا وہی نظم و طریقہ اختیار کیا جو آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا تھا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنی اس بات اور اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع ہوں، ڈیڑھ دو سال کے بعد تم دونوں ( علی و عباس ؓ میرے پاس آئے اور تم دونوں نے ایک ہی بات کہی ( کہ آنحضرت ﷺ کا مال ہم کو دے دو ) میں نے ( تمہارے مطالبہ کے جواب میں) تم سے کہا تھا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ ہم ( انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھورتے ہیں وہ صدقہ ( ہوتا) ہے۔ لیکن جب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مجھے اس مال و جائداد کو تمہارے سپرد کردینا چاہئے تو میں نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ مال وجائداد اس شرط پر تمہارے سپرد کرسکتا ہوں کہ تم ( اس بات کا عہد کرو کہ) اس مال کو خرچ کرنے کا وہی نظم و طریقہ باقی رکھو گے جو آنحضرت ﷺ نے جاری کیا تھا اور جس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اور خلیفہ ہونے کے بعد میں نے عمل کیا تھا اور اگر تم لوگوں کو یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آئندہ اس بارے میں مجھ سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم نے ( اس شرط کو منظور کرلیا اور) کہا کہ آپ اس مال و جائداد کو اس شرط پر ہمارے حوالے کر دیجئے۔ چناچہ میں نے تمہارے سپرد کردیا۔ ( تم لوگوں کو یہ ساری بات اچھی طرح یاد ہوگی) تو کیا تم لوگ اب مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ ( اس سلسلے میں جو بات میرے اور تمہارے درمیان طے ہوچکی ہے) میں اس کے خلاف فیصلہ کروں؟ نہیں! اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، میں قیامت تک بھی اس کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتا، ہاں اگر تم اس مال و جائداد کے انتظام سے عاجز آگئے ہو تو اس کو دوبارہ میرے حوالے کردو میں تمہیں اس کے انتظامی جھمیلوں سے بےپرواہ کر دوں گا اور خود مشقّت اٹھا کر ( بھی) اس کا انتظام کروں گا۔ اس روایت کے راوی حضرت امام زہری (رح) کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے بارے میں حضرت عروہ ابن زبیر ؓ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک ابن اوس نے بالکل صحیح بیان کیا ہے۔ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ( کچھ) ازواج مطہرات نے حضرت عثمان ؓ کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس بھیج کر اس مال وجائداد کی اپنی میراث کا مطالبہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو مال فئی کے طور پر عطا کیا تھا ( جب مجھے یہ معلوم ہوا تو) میں نے ان کی مخالفت کی اور ان سے کہا کہ تمہیں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوتا؟ کیا رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد تمہارے علم میں نہیں ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ( ہوتا) ہے اور آل محمد اس میں سے کھائے گی۔ تب ازواج مطہرات آنحضرت ﷺ کی میراث کے مطالبہ سے باز آئیں اور میری بیان کی ہوئی حدیث کی بناء پر انہوں نے رجوع کرلیا۔ حضرت عروہ کہتے تھے ( حضرت عمر ؓ نے جب آنحضرت ﷺ کا وہ صدقہ یعنی بنو نضیر کا وہ مال جو مدینہ میں تھا اور جس کے بارے میں مذکورہ بالا قضیہ تھا حضرت علی و حضرت عباس ؓ کی تولیت میں دے دیا تھا تو کچھ دنوں کے بعد) حضرت علی ؓ نے حضرت عباس ؓ پر غلبہ حاصل کر کے ان کو تنہا اپنے قبضہ تولیت میں لے لیا تھا، ان کے بعد حضرت حسن ابن علی ؓ کے قبضے میں آیا، حضرت حسن ؓ کے بعد حضرت حسین ؓ کے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد حضرت علی ابن حسین اور حسن ابن حسین کے قبضے میں رہا کہ یہ دونوں باری باری اس کو اپنے قبضے میں رکھتے تھے، ان کے بعد زید ابن حسن کے پاس آگیا۔ اور ایمانداری و سچائی کے ساتھ یہ (مال وجائداد) رسول کریم ﷺ کا صدقہ ہے کسی شخص کی میراث و ملکیت نہیں ہے۔ یہ بخاری کی حدیث کا اختصار ہے جس کو انہوں نے کتاب المغازی میں بنو نضیر کے واقعہ کے تحت نقل کیا ہے۔ کتاب الخمس میں بھی بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔ یہ روایت بھی بخاری کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیق ؓ بیان فرماتی تھیں کہ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ اور عباس، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس فدک کی زمین و جائداد و خیبر کے حصے کی میراث کا مطالبہ لے کر آئے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان سے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں چھوڑتے، ہم جو کچھ چھوڑیں صدقہ ہے۔ اس مال میں سے آل محمد ﷺ کھائے گی۔ اللہ کی قسم میرے نزدیک رسول اللہ کی قرابت ( والوں کے حقوق کی حفاظت کرنا) اور ان کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کا معاملہ کرنا اپنے قرابت والوں کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے۔ پیچھے جو طویل حدیث نقل کی گئی ہے اور جس میں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے اپنا قضیہ لے کر آنے کا ذکر ہے اس کو صاحب جامع الاصول نے بھی اپنی کتاب میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ( اس حدیث کے سلسلے میں) ابوداؤد نے یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ نے حضرت عمر فاروق ؓ سے جو مطالبہ کیا تھا اس کا مقصد صرف یہ درخواست کرنا تھا کہ آپ نے جس مال وجائداد کو مشترکہ طور پر ہم دونوں کی تولیت میں دیا تھا اب اس کے آدھوں آدھ بانٹ کر ہم دونوں کی تولیت اور سپردگی میں الگ الگ حصہ دے دیجئے، نہ کہ وہ دونوں حضرات آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد ہم ( انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے۔ سے غافل و لا علم تھے اور واقعۃً ان کا مقصد اس مال و جائداد کو اپنی میراث قرار دینا تھا، چناچہ ان دونوں کی نیت بھی صادق تھی اور ان کا مطالبہ بھی ایک درست عمل ( یعنی اس مال و جائداد کے انتظام میں زیادہ بہتری پیدا کرنے کے تقاضے کے پیش نظر تھا تاہم اس کے باوجود حضرت عمر ؓ نے ان کے مطالبہ کو پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ واضح کردیا کہ میں اس کو گوارا نہیں کرسکتا کہ کسی بھی صورت میں اس مال و جائداد پر تقسیم کا نام آئے بلکہ اس کو جوں کا توں رکھنا ہی میرے نزدیک زیادہ ضروری ہے۔ بخاری نے کتاب الخمس میں حضرت عروہ ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ان ( عروہ) سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مطالبہ کیا کہ ان کو میراث دی جائے جو رسول اللہ ﷺ اس مال وجائداد میں سے چھوڑ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مال فئی کے طور پر عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کو جواب دیا کہ (تمہارا یہ مطالبہ قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ) رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ لانورث ماترکناہ صدقۃ یعنی ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ مال میرے قبضہ و اختیار میں ہے اور جب میں مرجاؤں گا تو اس شخص کے قبضہ واختیار میں ہوگا جو میرے بعد خلافت و امارت کی ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ حضرت فاطمہ ؓ کو اس بات سے سخت ناگواری ہوئی یہاں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ہجران (یعنی ترک سلام و کلام) کرلیا اور اپنی وفات تک اسی ترک سلام و کلام پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ حضرت فاطمہ ؓ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صرف چھ مہینے تک بقید حیات رہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا۔ حضرت فاطمہ، حضرت ابوبکر صدیق سے اس مال وجائداد میں سے اپنے مال وحصے کا مطالبہ کیا کرتی تھیں جو آنحضرت ﷺ نے خیبر وفدک کی زمین و باغات اور مدینہ میں اپنے صدقہ (یعنی بنو نضیر کے مال و جائداد) کی صورت میں چھوڑا تھا، لیکن حضرت ابوبکر صد یق ؓ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کرتے تھے میں کسی ایسی چیز کو ترک نہیں کروں گا جس پر آنحضرت ﷺ کا معمول رہا ہو، اس مال وجائداد کے بارے میں میرا وہی عمل رہے گا جو آنحضرت ﷺ کا رہا ہے، مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں کسی ایسی چیز پر عمل کرنے سے باز رہوں جو آنحضرت ﷺ کے حکم و منشاء کے مطابق ہے تو یقینًا میرا یہ فعل راہ حق سے اعراض و گریز کے مرادف ہوگا۔ چناچہ (حضرت ابوبکر صدیق آخر تک اپنے اسی فیصلے پر قائم رہے اور پھر ان کی وفات کے بعد) حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ صورت اختیار کی آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں جو صدقہ چھوڑا تھا (یعنی بنو نضیر کی زمین وجائداد) اس کو تو حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے سپرد کردیا (کہ وہ دونوں حضرات مشترکہ طور پر اس کی تولیت کے فرائض انجام دیں) اور خیبر وفدک کی زمین، جائداد کو اپنی تولیت میں رکھا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا (چھوڑا ہوا) صدقہ ہے جس سے آپ ﷺ کے حقوق متعلق تھے۔ نیز انہوں نے (کسی فرمان یا وصیت کے ذریعہ) ان زمین و جائدادوں کا متولی و نگران اسی شخص کو قرار دیا جو خلافت وامارت کی ذمہ داریاں سنبھالے۔ چناچہ وہ اب تک اسی صورت حال کے مطابق ہیں۔ بہرحال، اس بارے میں اوپر جو احادیث نقل کی گئیں یا وہ احادیث جو اسی مفہوم و مضمون سے متعلق صحاح ستہ میں متعدد طرق واسانید سے منقول ہیں ان سب سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ارشاد گرامی لا نورث ماترکناہ صدقۃ کا صحیح تر ثابت اور معمول بہ ہونا، آنحضرت ﷺ نے مال و جائداد کی قسم سے جو کچھ چھوڑا اس کا عام مسلمانوں کے درمیان مشترک ہونا اور ان کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کیا جانا اور اس کا اس شخص کے قبضہ اختیار میں ہونا جو خلافت و امارت کا منصب سنبھالے ہوئے ہو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حتی کے حضرت عباس کے ؓ کے نزدیک بھی ایک متفقہ علیہ مسئلہ تھا۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس مال وجائداد کو حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی تولیت میں دیا جانا ایک درست عمل اور بہتر طریقہ تھا تو حضرت عمر ؓ نے شروع ہی میں یہ صورت اختیار کیوں نہ کرلی اور اگر وہ کوئی درست عمل اور بہتر طریقہ نہیں تھا تو پھر انہوں نے بعد میں اس مال وجائداد کو ان لوگوں کی تولیت میں کیوں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شروع میں ان دونوں کا مطالبہ چونکہ یہ تھا اس مال وجائداد کو ان کی ملکیت میں دے دیا جائے اس لئے حضرت عمر ؓ نے ان کے مطالبہ کو منظور نہیں کیا اور پھر بعد میں جو ان لوگوں کو دیا تو اس کی بنیاد یہ تھی کہ ان لوگوں کو اس مال و جائداد کا مالک نہیں بنایا گیا بلکہ صرف متولی و منتظم بنایا گیا تھا اور یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ اس کو انہیں مصارف میں خرچ کیا جائے گا جن میں آنحضرت ﷺ خرچ کیا کرتے تھے۔ مگر بات یہیں صاف نہیں ہوجاتی بلکہ جیسا کہ خطابی نے کہا ہے، مسئلہ میں ایک دوسری طرف سے الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس سوال کی صورت میں کہ جب حضرت عباس اور حضرت علی ؓ نے اس مال وجائداد کو مذکورہ شرط پر قبضہ میں لیا تھا اور ان لوگوں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ مال وجائداد آنحضرت ﷺ کا ورثہ نہیں ہے اور جلیل القدر مہاجر صحابہ کرام نے اس کی تصدیق بھی کی تھی تو پھر آخر ان لوگ کے درمیان یہ اختلاف وخصومت کی شکل کیوں پیدا ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس تولیت میں شرکت دونوں ہی پر شاق گزر رہی تھی لہٰذا انہوں نے یہ درخواست کی کہ اس مال و جائداد کو تقسیم کرکے ہر ایک کو ایک ایک حصے کا منتظم ومتولی بنادیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی واسطہ رکھے بغیر اپنے اپنے حصے کی دیکھ بھال اور اس کے اور خرچ و تصرف کا انتظام آزادی ویکسوئی کے ساتھ کرتے رہیں لیکن حضرت عمر ؓ نے ان کی درخواست کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ مبادا یہ تقسیم ملکیت کی صورت کے مشابہ ہوجائے کیونکہ تقسیم املاک میں ہوا کرتی ہے دوسرے یہ کہ فی الوقت نہ صحیح لیکن طویل زمانہ گزر جانے پر اس میں خود باخود ملکیت کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کا ہے کیونکہ اگر ان کے مطالبہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اس حدیث اور آپ ﷺ کے اس عمل سے قطعا لاعلم تھیں تو یہ بات بعید از حقیقت ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ بہرحال ممکن ہے کہ ان کو آنحضرت ﷺ سے یہ ارشاد سننے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو پھر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے سامنے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بیان فرمایا اور دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس کی تصدیق کی تو پھر انہوں نے اس بات کو قبول کرنے سے کیوں انکار کیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ اس قدر ناراضگی کی صورت کیوں اختیار کی یا اگر ناراضگی کی صورت اس حدیث کو سننے سے پہلے پیدا ہوچکی تھی تو سننے کے بعد انہوں نے اس کو ختم کیوں نہیں کیا جس نے اتنا طول کھینچا کہ وہ زندگی کے آخری لمحہ تک حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ترک سلام و کلام پر قائم رہیں؟ کرمانی نے بخاری کی شرح میں اس کا جواب یہ لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کی ناراضگی اصل میں ایک ایسی صورت تھی جو ان میں بتقاضائے بشریت پیدا ہوگی اور ہجران سے ہجران محرم یعنی ترک وسلام و کلام اور انقطاع تعلق مراد نہیں ہے بلکہ ملنے جلنے سے طبیعت میں انقباص و کوفت کا پیدا ہوجانا مراد ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان مذکورہ صورت حال پیدا ہوگئی (کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف سے حضرت فاطمہ ؓ کا مطالبہ تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ ان سے ناراض ہوگئیں) تو (ایک دن) حضرت ابوبکر ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور آفتاب کی سخت گرمی اور دھوپ کی شدید تمازت کے باوجود ان کے دروازے پر کھڑے رہے اور ان سے عذر خواہی کرتے رہے اور یہ فرمایا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی قرابت (کے حقوق کی رعایت و حفاظت) مجھے اپنی قرابت سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے لیکن میں کیا کروں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے اس حدیث کو سنا ہے اور دوسرے صحابہ کرام اس پر گواہ ہیں۔ تب حضرت فاطمہ (کا دل صاف ہوگیا اور ان) کی ناراضگی ختم ہوگئی۔ تمت بالخیر
Top