مشکوٰۃ المصابیح - فئی تقسیم کر نے سے متعلق - حدیث نمبر 3964
وعنه قال : كان فيما احتج فيه عمر أن قال : كانت لرسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاث صفايا بنو النضير و خيبر وفدك فأما بنو النضير فكانت حبسا لنوائبه وأما فدك فكانت حبسا لأبناء السبيل وأما خيبر فجزأها رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثة أجزاء : جزأين بين المسلمين وجزء نفقة لأهله فما فضل عن نفقة أهله جعله بين فقراء المهاجرين . رواه أبو داود
قضیہ فدک میں حضرت عمر کا استدلال
اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے جس بات سے استدلال کیا وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کے پاس تین صفایا تھیں۔ ١ بنو نضیر۔ ٢ خیبر۔ ٣ فدک۔ چناچہ بنو نضیر ( کے جلا وطن ہوجانے کے بعد ان کی جو زمین جائداد قبضے میں آئی تھی اس سے حاصل ہونے والا مال) آنحضرت ﷺ کے اخراجات ( جیسے مہمانوں کی ضیافت و تواضع اور مجاہدین کے لئے ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری وغیرہ) کے لئے مخصوص تھا۔ فدک کے محاصل (ان) مسافروں ( کی امداد و اعانت کرنے کے لئے) مخصوص تھے ( جو اگرچہ اپنے وطن میں تو مال رکھتے ہوں مگر سفر کے دوران ان کے پاس مال و اسباب ختم ہوگیا ہو )۔ اور خیبر ( کے محاصل) کے رسول کریم ﷺ نے تین حصے کر رکھے تھے، ان میں سے دو حصے تو آپ ﷺ مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے رکھتے تھے اور اس میں سے بھی اہل و عیال کے خرچ سے جو کچھ بچ جاتا اس کو آپ ﷺ نادار مہاجرین پر خرچ کردیتے تھے۔ ( ابوداؤد)

تشریح
جس بات سے استدلال کیا الخ یعنی جب حضرت عباس اور حضرت علی ؓ فدک کے مال کے بارے میں اپنا مطالبہ لے کر حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو حضرت عمر ؓ نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور جن جائداد و زمینوں پر آنحضرت ﷺ کا ذاتی حق تھا ( جیسے بنو نضیر، خیبر اور فدک کی زمین، جائدادیں) ان کے بارے میں مذکورہ بالا تفصیل بیان کی اور چونکہ اس تفصیل کے بیان کے وقت دوسرے صحابہ بھی موجود تھے جن میں سے کسی نے بھی حضرت عمر کی بیان کردہ تفصیل کی تردید نہیں کی اس لئے گویا یہ بات ان کے فیصلے کی دلیل قرار پائی۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے اتنا ضرور کیا کہ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کو فدک کے محاصل کا متولّی بنادیا کہ وہ دونوں اس محا صل کو اسی طرح صرف کریں جس طرح آنحضرت ﷺ صرف کیا کرتے تھے۔ صفایا صفیہ کی جمع ہے صفیہ اس کو کہتے ہیں کہ امام وقت ( اسلامی مملکت کا سربراہ) مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کوئی چیز چھانٹ کر اپنے لئے مخصوص کرے۔ یہ بات صرف آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص تھی کہ آپ ﷺ مال غنیمت میں سے خمس کے علاوہ اور بھی جو چیز جیسے لونڈی، غلام، تلوار اور گھوڑا وغیرہ چاہتے اس کو لے لینے کا حق رکھتے تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے امام وقت کے لئے یہ بات جائز نہیں۔ فدک ایک بستی کا نام تھا جو خیبر کے مواضعات میں سے تھی اور مدینہ سے دو روز کے فاصلہ پر واقع تھی یہ ایک شاداب اور سرسبز جگہ تھی جہاں زیادہ تر کھجور کے اور تھوڑے بہت دوسرے پھلوں کے باغات تھے۔ رسول کریم ﷺ کو فدک پر صلح کے ذریعہ تسلّط حاصل ہوا تھا اور صلح کی بنیاد یہ معاہدہ تھا کہ وہاں کی آدھی زمین تو فدک والوں کی رہے گی آدھی زمین پر آنحضرت ﷺ کا حق ہوگا، چناچہ فدک کی وہ آدھی زمین آنحضرت ﷺ کی ذاتی ملکیت میں رہی جس کی آمدنی اور پیداوار سے آپ ﷺ حدیث کے مطابق محتاج مسافروں کی امداد و اعانت فرماتے تھے۔ خیبر کے محاصل کو آپ ﷺ تین حصوں میں اس لئے تقسیم کرتے تھے کہ خیبر کا علاقہ اصل میں بہت سارے مواضعات اور بستیوں پر مشتمل تھا ان میں سے بعض گاؤں تو بزور طاقت فتح کئے گئے تھے اور بعض گاؤں بغیر جنگ وجدال کے صلح کے ذریعہ قبضہ واختیار میں آئے تھے، چناچہ جو گاؤں بزور طاقت فتح کئے گئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ مال غنیمت تھا اس لئے اس میں سے آپ ﷺ خمس لیتے تھے اور جو گاؤں بذریعہ صلح قبضہ واختیار میں آئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ مال فئی تھا اس لئے وہ تمام تر آپ ﷺ کی ذاتی ملکیت تھا جس کو آپ ﷺ اپنی ضروریات اپنے اہل و عیال کے اخراجات اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں جہاں مناسب سمجھتے خرچ کرتے تھے۔ لہٰذا اس بنا پر تقسیم و مساوات کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ ﷺ خیبر کے سارے مال کو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے تین حصوں میں کر کے دو حصے مسلمانوں کو دیں اور ایک حصہ اپنے پاس رکھیں۔
Top