مشکوٰۃ المصابیح - عیدین کا بیان - حدیث نمبر 1402
وَسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسص ٍ اَشَھِدْتَّ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الْعِےْدَ قَالَ نَعَمْ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلّٰی ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ ےَذْکُرْ اَذَانًا وَّلَا اِقَامَۃًثُمَّ اَتَی النِّسَآءَ فَوَعَظَھُنَّ وَذَکَّرَھُنَّ وَاَمَرَھُنَّ بِالصَّدَقَۃِ فَرَاَےْتُھُنَّ ےَھْوِےْنَ اِلٰی اٰذَانِھِنَّ وَحُلُوْقِھِنَّ ےَدْفَعْنَ اِلٰی بِلَالٍ ثُمَّ ارْتَفَعَ ھُوَ وَبِلَالٌ اِلٰی بَےْتِہٖ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
عیدین کی نماز کے لئے اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے
(مروی ہے کہ ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ عید میں شریک ہوئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں (پھر آپ نے یہ تفصیل بیان کی کہ) رسول اللہ ﷺ (عیدگاہ) تشریف لے گئے چناچہ آپ ﷺ نے وہاں عید کی نماز پڑھی پھر خطبہ ارشاد فرمایا حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے (رسول اللہ ﷺ کی نماز تفصیل سے بیان کرنے کے دوران) تکبیر و اذان کا ذکر نہیں کیا (پھر انہوں نے فرمایا کہ) اس کے بعد آپ ﷺ عورتوں کی جماعت کی طرف آئے، ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے، ان عورتوں کو نصیحت فرمائی، دین کے احکام یاد کرائے۔ ثواب و عذاب کے بارے میں بتایا اور ان کو صدقہ (یعنی فطرانہ و زکوٰۃ یا محض اللہ کے نام پر) دینے کا حکم فرمایا چناچہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ کانوں اور گلوں کی طرف (زیور اتارنے کے لئے) بڑھاتی تھیں اور کانوں اور گلوں کے زیور (اتار اتار کر) حضرت بلال ؓ کے حوالہ کر رہی تھیں (تاکہ وہ ان کی طرف سے فقراء و مساکین میں تقسیم کردیں) پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور حضرت بلال اپنے گھر تشریف لے آئے۔ (صحیح البخاری )

تشریح
جیسا کہ حضرت جابر ابن سمرہ ؓ نے بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس روایت سے بھی ثابت ہو رہا ہے کہ نماز عید و بقر عید کے لئے اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے حکم سے عورتیں بھی نماز عید و بقر عید میں عید گاہ جاتی تھیں۔ چناچہ جب آپ ﷺ مردوں کو وعظ و نصیحت فرما چکے تو علیحدہ سے عورتوں کے پاس بھی انہیں پند و نصیحت کرنے کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ عورتیں مردوں سے الگ ایک طرف بیٹھی ہوتی تھیں اس لئے جب آپ مردوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آواز ان تک اچھی طرح نہیں پہنچتی تھی۔
Top