مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 257
وَعَنِ الْحَسَنِ قَالَ الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِی الْقَلْبِ فَذَاکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَذٰلِکَ حُجَّۃُ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ۔ (رواہ الدرامی)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ علم جو دل کے اندر ہوتا ہے یہ علم تو نفع دیتا ہے اور دوسرا وہ علم ہے جو زبان کے اوپر ہوتا ہے یہ علم آدمی پر اللہ عزوجل کی دلیل و حجت ہے۔ (دارمی)

تشریح
حضرت حسن بصری (رح) نے علم کی جو دو قسمیں کی ہیں ان میں سے پہلے کو علم باطن کہا جاتا ہے اور دوسرے کو علم ظاہر چناچہ جب تک ظاہر کی اصلاح نہیں ہوتی علم باطن سے کچھ میسر نہیں آتا، اسی طرح جب تک باطن کی اصلاح نہیں ہوجاتی علم ظاہر کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ابوطالب مکی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں علم اصل اور بنیادی ہیں اور ان دونوں میں اس درجہ کا ارتباط و تعلّق ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایمان و اسلام کہ ایک دوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوتے یا جیسے دل و جسم کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ٹھیک اسی طرح ان دونوں علوم کا آپس میں ارتباط وتعلق ّہے۔ (ملاقاری) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ نفع دینے والا علم وہ ہوتا ہے کہ جب اس کی روشنی سے دل منوّر ہوجاتا ہے تو دل کے وہ پردے اٹھ جاتے ہیں جو حقائق اشیاء کی معرفت و فہم کے لئے مانع ہیں۔ علم نافع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو علم معاملہ جو عمل کا باعث ہوتا ہے اور دوسرا علم مکاشفہ جو عمل کا اثر ہوتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے دل میں یہ نورانی علم ڈال دیتا ہے اور حضرت حسن بصری (رح) نے جس علم کو نافع قرار دیا ہے وہ یہی علم ہے اور جو علم زبان کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جو نہ تو تاثیر رکھتا ہے اور نہ دل میں نورانیت پیدا کرتا ہے علم چوں بردل زند یاری شود علم چوں برتن زند ماری شود چنانچہ اسی علم کو کہا جا رہا ہے کہ یہ بندوں پر اللہ کی جانب سے حجت اور دلیل ہے کہ اللہ بندوں کو الزام دیتے ہوئے فرمائے گا کہ میں نے تو تمہیں علم دیا تھا تم نے اس پر علم کیوں نہیں کیا؟ اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ جاہل کے لئے ایک بار بربادی ہے اور عالم کے لئے سات بار کیونکہ یہ دیدہ و دانستہ گمراہ ہوا۔
Top