مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 239
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّجُلُ الْفَقِیْہُ فِی الدِّیْنِ اَنِ احْتِیْجَ اِلَیْہٖ نَفَعَ وَاِنِ اسْتُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنَی نَفْسَہ،۔ (رواہ رزین)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ بہتر آدمی وہ ہے جو دین کی سمجھ رکھتا ہو۔ اگر اس کے پاس کوئی حاجت لائی گئی تو اس نے نفع پہنچایا اور اگر اس سے بےپروائی برتی گئی تو اس نے بھی اپنے نفس کو بےپرواہ رکھا۔ (رزین)

تشریح
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک عالم کی یہ شان ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا محتاج کر کے اپنی حیثیت کو کمتر نہ کرے، نیز غلط اغراض و مقاصد کی خاطر عوام کی مصاحبت کی طرف میلان نہ رکھے اور نہ ان سے کسی دنیاوی غرض و منافع کی طمع کرے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو عوام سے بالکل بےتعلق کرلیا جائے اور اپنے علم سے اللہ کی مخلوق کو محروم رکھا جائے۔ بلکہ اگر عوام دینی ضروریات کے سلسلے میں صرف اسی کے محتاج ہوں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے عالم کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی رجوع اس کی طرف ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے درمیان جائے اور ان کی دینی و اسلامی ضروریات کو پورا کر کے انہیں نفع پہنچائے۔ ہاں اگر عوام خود اس سے لاپرواہی برتیں کہ انہیں اس سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہو اور نہ وہ اس کے محتاج ہوں تو چاہئے کہ وہ بھی ان سے بےپروائی برتے اور ان سے ترک تعلق کر کے اپنے اوقات کو عبادت الٰہی میں مشغول رکھے یا پھر خدمت علم دین کی خاطر دینی کتابوں کے مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں منہمک ہو کر اس ذریعہ سے علم کی روشنی پھیلائے۔
Top