علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ ( اسم گرامی عوف بن مالک اشجعی ہے کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔ بعض حضرات نے ابوحماد اور بعض نے عمرو بھی لکھا ہے۔ دمشق میں ٧٣ ھ میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔ (اسد الغابہ) راوی ہیں سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ تین آدمی قصہ بیان کریں گے، حاکم یا محکوم یا تکبر کرنے والا۔ اور دارمی نے اس حدیث کو عمرو بن شعیب ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے اور دارمی کی روایت میں لفظ مختال یعنی تکبر کرنے والا کی بجائے اومراء (یا ریاکار) ہے۔
تشریح
قصہ بیان کرنے سے مراد و عظ و نصیحت کرنا اور حکایات وقصص بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وعظ و تقریر عمومًا تین آدمی کرتے ہیں ان میں سے دو حق پر ہیں یعنی حاکم و محکوم۔ ان ہی لوگوں کو وعظ بیان کرنا چاہئے۔ تیسرا آدمی متکبر ہے اس کو وعظ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ وہ وعظ کہنے کا اہل نہیں ہے۔ گویا حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ وعظ کہنا اوّل تو امیر یعنی حاکم کا حق ہے کیونکہ وہ رعیت پر سب سے زیادہ مہربان ہوتا ہے۔ اور رعایا کی اصلاح کے امور کو بخوبی جانتا ہے۔ اگر حاکم خود وعظ نہ کہے تو علماء میں سے جو عالم تقویٰ و تقدس میں سب سے افضل و اعلیٰ ہو اور دنیاوی طمع نہ رکھتا ہو، وہ اسے مقرر کرے گا تاکہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا رہے، لہٰذا مامور سے مراد ایک تو وہ عالم ہوگا جس کو حاکم وقت نے رعایا کی اصلاح کے لئے مقرر کیا ہو یا مامور سے مراد دوسرا وہ آدمی ہے جو منجانب اللہ مخلوق کی ہدایت اور اصلاح کے لئے مامور کیا گیا ہو، جیسے علماء کرام اور اولیاء اللہ عظام جو لوگوں کے سامنے وعظ بیان کیا کرتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کی اصلاح و ہدایت میں لگے رہتے ہیں، لہٰذا اس حدیث سے ایسے لوگوں پر زجر و توبیخ مقصود ہے جو طلب جاہ اور دولت کی خاطر وعظ بیان کیا کرتے ہیں حالانکہ نہ وہ علمی حیثیت سے اس عظیم منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نہ عملی طور پر وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ لوگوں کی اصلاح کرسکیں۔ وعظ بیان کرنا صرف انہی دو آدمیوں کا حصہ ہے اور یہی اس کے مستحق اور اہل ہیں۔ ان کے علاوہ جو وعظ بیان کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ازراہِ فخر وتکبر اور حصول جاہ و منفعت کی خاطر یہ کام کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا باعث ہے۔