مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 227
وَعِنْ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اُنْزِلَ الْقُرْاٰنُ عَلَی سَبْعَۃِ اُحْرُفِ لِکُلِّ اٰیَۃِ مِّنْھَا ظَھْرٌوَّ بَطْنٌ وَلِکُلِّ حَدِ مُطَّلَعٌ۔ (رواہ فی شرح النسۃ)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ قرآن کریم سات طرح پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے ہر آیت ظاہر ہے اور باطن ہے اور ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے۔ (شرح السنۃ)

تشریح
دنیا کی ہر زبان میں فصاحت و بلاغت اور لب و لہجہ کے اعتبار سے مختلف اسلوب اور مختلف لغات ہوتی ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں بھی سات لغات عرب میں مشہور تھیں، اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سات طرح یعنی سات لغات پر نازل ہوا ہے۔ اس سات لغات کی تفصیل اس طرح ہے۔ لغت قریش، لغت طی، لغت ہوازن، لغت اہل یمن، لغت ثقیف، لغت ہذیل اور لغت بنی تمیم۔ قرآن کریم سب سے پہلے قریش کی لغت کے مطابق نازل ہوا تھا جو سرکار دو عالم ﷺ کی لغت تھی لیکن جب تمام عرب میں اس لغت کے مطابق قرآن کا پڑھنا جانا اس لئے دشوار و مشکل ہوا کہ ہر قبیلہ اور ہر قوم کی اپنی ایک مستقل لغت اور زبان کے لب و لہجہ کا الگ الگ انداز تھا تو سرکا دو عالم ﷺ نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ اس سلسلہ میں وسعت بخشی جائے تو حکم دے دیا گیا کہ ہر آدمی قرآن کو اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے چناچہ حضرت عثمان غنی کے ؓ کے زمانہ تک اسی طرح چلتا رہا اور لوگ اپنی اپنی لغت کے اعتبار سے قرآن پڑھتے رہے۔ لیکن جب حضرت عثمان غنی ؓ نے کلام اللہ کو جمع کیا اور اس کی کتابت کرا کر اسلامی سلطنت کے ہر ہر خطہ میں اسے بھیجا تو انہوں نے اسی لغت کو مستقل قرار دیا جس پر حضرت زید بن ثابت ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق صدیق ؓ کے حکم اور حضرت عمر فاروق ؓ کے مشورہ سے قرآن کو جمع کیا تھا اور وہ لغت قریش تھی، حضرت عثمان غنی ؓ نے یہ حکم بھی فرمایا کہ تمام لغات منسوخ کردی جائیں صرف اس ایک لغت کو باقی رکھا جائے۔ چناچہ حضرت عثمان غنی ؓ کے حکم کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ قرآن صرف ایک لغت میں جمع ہوگیا جس سے دنیا کے ہر خطہ کے لوگوں کے لئے آسانیاں ہوگئیں بلکہ اس کی وجہ سے ایک بڑے فتنہ کی جڑ بھی ختم کردی گئی اور فتنہ یہ تھا کہ لغات کے اختلافات کی وجہ سے مسلمان آپ میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور نوبت بأیں جا رسد کہ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کو اپنی لغت کے خلاف قرآن پڑھتا دیکھتا تو یہ سمجھ کر کہ صرف میرے قبیلہ ہی کی لغت صحیح ہے اسے کافر کہہ دیا کرتا تھا، چناچہ لغت قریش کے علاوہ جس پر قرآن نازل ہوا تھا بقیہ تمام لغات ختم کردی گئیں اور اگر کوئی لغت باقی بھی رہی تو وہی رہی جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق رہا اور جو سند متصل اور تواتر کے ساتھ آخر میں قراء سبعہ تک پہچنی اس کے علاوہ لغت میں مکرر یعنی امالہ و ادغام وغیرہ کا اختلاف بھی باقی رہا جو آج تک قراء سبعہ میں موجود ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ قرآن سات طرح پر نازل ہوا ہے تو ساتھ طرح سے مراد وہ سات قرأتیں ہیں جو قراء سبعہ پڑھتے ہیں، پھر علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ قرأتیں ساتھ سے زیادہ ہیں لیکن یہاں سات کی تحدید اس لئے کی گئی ہے کہ اختلاف کی بھی سات ہی قسمیں ہیں جن کی طرف یہ سات قرأتیں راجع ہیں۔ جیسے (١) کلمہ کی ذات میں اختلاف یعنی کلمہ میں کمی و زیادتی ہیں۔ (٢) جمع اور مفرد کا اختلاف (٣) مذکر اور مونث کا اختلاف (٤) صرفی اختلاف یعنی تخفیف و تشدید اور فتح و کسرہ وغیرہ کا اختلاف جیسے مَیَّتٌ اور مِیَتٌ یَقنط اور یقنط (٥) اعراب کا اختلاف (٦) حروف کا اختلاف جیسے لکن الشیطین میں نون کی تشدید اور تخفیف (٧) ادائیگی لغات کا اختلاف جیسے تفخیم اور امالہ وغیرہ حدیث کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ہر آیت کا ظاہر ہے اور باطن ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیت کے ایک ظاہر معنی ہیں جو تمام اہل زبان سمجھتے ہیں اور ایک باطنی معنی ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے وہی بندگانِ خاص سمجھتے ہیں جن کے قلب و دماغ معرفت کی روشنی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے حد کے معنی طرف اور نہایت کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ظاہر اور باطن کی ایک حد اور نہایت ہے اور حد و نہایت کے لئے ایک مطلع یعنی ایسا مقام ہے جس پر پہنچنے اور اس کے حاصل کرنے کے بعد آدمی اس حد اور نہایت پر مطلع ہوتا ہے۔ چنانچہ ظاہر کا مطلع یعنی وہ مقام جس پر پہنچ کر حد اور نہایت معلوم ہوتی ہے، یہ ہے کہ عربی زبان اور اس کے اصول و قواعد سیکھے جائیں، علم صرف و نحو حاصل کیا جائے کہ قرآن کے ظاہری معنی انہیں سے متعلق ہیں، نیز ہر آیت کا شان نزول اور ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرے، یا اسی طرح وہ دوسری چیزیں ہیں جن پر قرآن کے ظاہری معنی کے سمجھنے کا انحصار ہے۔ باطن کا مطلع یہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ کیا جائے، قرآن کے ظاہری معنی اور ان کے احکام کا اتباع اور ان پر عمل کیا جائے نفس کو تمام برائی اور گناہ و معصیت سے پاک و صاف کیا جائے دل کو عبادت الٰہی اور رضائے الہٰی کے نور سے جلا بخشی جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے حصول کے بعد قرآن کے باطنی علوم اور اس کے اصرار و معارف کا قلب انسان پر انکشاف ہوتا ہے۔ امام محیّ السنۃ نے اپنی تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ ظہر سے مراد قرآن کے الفاظ ہیں اور باطن سے مراد الفاظ کی تاویل ہے۔ مطلع سے مراد فہم یعنی وہ سمجھ ہے جس کی وجہ سے قرآن کے اندر غور و فکر کرنے والے پر قرآن کے جن علوم و معنی اور تاویل کا انکشاف ہوتا ہے وہ دوسروں پر نہیں ہوتا۔
Top