مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 226
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ سَمِعَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَوْمًا یَتَدَارَؤُوْنَ فِی الْقُرْاٰنِ فَقَالَ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِھٰذَا۔ ضَرَبُوْا کِتَابَ اﷲِ بَعْضَہُ بِبِعْضِ وَاِنَّمَا نَزَلَ کِتَابُ اﷲِ یُصَدِّقُ بَعْضَہُ بَعْضًا فَلَا تُکَذِّبُوا بَعْضَہ، بِبَعْضِ فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْہُ فَقُوْلُوْا وَمَا جَھِلْتُمْ فَکِلُوْہُ اِلَی عَالِمِہٖ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابن ماجۃ)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
حضرت عمرو ابن شعیب ؓ ( عمرو ابن شعیب تابعی ہیں، عمرو بن العاص ؓ کے خاندان سے ہیں)۔ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ آپس میں قرآن کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور جھگڑ رہے ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک تم سے پہلے کے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے انہوں نے کتاب اللہ کے بعض حصہ کو بعض پر مارا (یعنی آیات میں تضاد اور اختلاف ثابت کیا کہ فلاں آیت فلاں آیت کے مخالف ہے اور یہ آیت فلاں آیت کے مخالف ہے) اور بیشک کتاب اللہ کا بعض حصہ بعض کی تصدیق کرتا ہے لہٰذا تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض سے نہ جھٹلاؤ اور اس کے بارے میں جتنا تم جانتے ہو اس کو بیان کرو اور جو نہیں جانتے ہو اسے جاننے والوں کی طرف سونپ دو۔ (مسند احمد بن حنبل و ابن ماجہ)

تشریح
جیسا کہ اس سے پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ جن لوگوں کا علم ناقص ہوتا ہے اور جن کے ایمان و عقیدہ میں کمزوری اور ذہن و فکر میں کمی ہوتی ہے وہ آیات میں باہم اختلاف پیدا کرتے رہتے ہیں اور آیت کے حقیقی مفہوم و مراد سے ہٹ کر ان کے ناقص ذہن و فکر میں جو مفہوم آتا ہے اسے بیان کرتے ہیں اور پھر اسی طرز پر اپنے نظریات و اعتقادات کی بنیاد بھی رکھ دیتے ہیں جس کی مثال ماقبل کی حدیث میں بیان کی جا چکی ہے۔ اس کے بارے میں یہاں بھی فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں کچھ آیتوں میں اختلاف نظر آئے تو اس میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعہ ساقط نہ کرو اور نہ اس کی تکذیب کرو بلکہ جہاں تک تمہارا علم مدد کرسکے ان میں تطبیق پیدا کرو، اگر ایسا نہ کرسکو تو پھر تم بجائے اس کے کہ اس میں اپنی عقل و سمجھ کے تیر چلاؤ اس کے حقیقی معنی و مفہوم کا علم اللہ اور اللہ کے رسول کی جانب سونپ دو، یا پھر ایسے علماء و صلحاء جو علم کے اعتبار سے تم سے اعلیٰ و افضل ہوں اور تم پر فوقیت رکھتے ہیں ان سے رجوع کرو۔
Top