مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 224
وَعَنْ جُنْدُبِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْاٰنِ بِرَاِیْہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ۔(رواہ الجامع ترمذی و ابوداؤد)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت جندب ؓ (آپ کا اسم گرامی جندب ابن عبداللہ بجلی علقی ہے حضرت عبداللہ ابن زبیر اور یزید کے حامیوں میں جو جنگ چل رہی تھی اس وقت یہ حیات تھے اس فتنہ کے چار دن بعد آپ کا انتقال ہوا ہے)۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور وہ حقیقت و واقع کے مطابق بھی ہو تو اس نے تب بھی غلطی کی۔ (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)

تشریح
یعنی کسی آدمی نے قرآن کی کسی آیت کی ایسی تفسیر بیان کی جو نہ تو احادیث سے ثابت تھی اور نہ علمائے امت سے منقول بلکہ محض اپنی عقل و رائے پر بھروسہ کر کے آیت کی تفسیر بیان کردی مگر اتفاق سے اس کی بیان کردہ تفسیر صحیح اور حقیقت و واقعہ کے بالکل مطابق ہوئی کہ اس سے آیت کے معنی و مطالب میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بھی اس نے غلطی کی کیونکہ تفسیر گو صحیح ہوئی مگر چونکہ اس نے قصدًا اپنی عقل اور رائے کو قرآن کی تفسیر میں دخل دیا اور تفسیر کا جو شرعی قاعدہ و طریقہ ہے اس سے انحراف کیا اس لئے وہ بھی خطا کار کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔ مجتہد کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ اگر مجتہد اپنے اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے تو اس پر نہ صرف یہ کہ کوئی مواخذہ نہیں بلکہ اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ تفیسر اسے فرماتے ہیں کہ آیت کے جو معنی و مطالب بیان کئے جائیں اس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ آیت کی مراد اور اس کا حقیقی مطلب یہی ہے اور یہ بات سوائے اہل تفسیر کی نقل کے جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک پہنچی ہو درست نہیں ہے یعنی ایسا یقین اور اطمیان اسی تفسیر پر صحیح ہوگا جو اجلہ علماء اور مستند مفسرین سے منقول ہو کیونکہ انہوں نے وہی معنی و مطالب بیان کئے ہیں جو براہ راست سرکار دو عالم ﷺ سے منقول ہیں اور جو واسطہ بالواسطہ ان تک پہنچے ہیں۔ تاویل اسے فرماتے ہیں کہ کسی آیت کے معنی و مطالب بیان کرتے ہوئے بطریق احتمال کے یہ کہا جائے کہ میں جو معنی بیان کر رہا ہوں اور آیت کی جو تفسیر کر رہا ہوں ہوسکتا ہے کہ مراد اصلی یہی ہو۔ یہ چیز درست اور صحیح ہے لیکن یہ بھی جب ہی صحیح ہوگی کہ بیان کردہ تفسیر قواعد عربی اور شرع کے مطابق ہو۔
Top