مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 221
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ نَضَّرَ اﷲُ اِمْرَاً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَہ، کَمَا سَمِعَہُ فَرُبَّ مُبَلَّغِ اَوْعٰی لَہُ سَامِعِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ الدَّرِامِیُّ عَنْ اَبِی الدَّرْدَآئِ۔
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو تازہ رکھے (یعنی خوش اور باعزت رکھے) جس نے مجھ سے کوئی بات سنی اور جس طرح سنی تھی اسی طرح اس کو پہنچا دیا چناچہ اکثر وہ لوگ جنہیں پہنچا دیا جاتا ہے سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ (جامع ترمذی سنن ابن ماجہ) اور دارمی نے اس حدیث کو ابوداؤد سے روایت کیا ہے۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی مقدس احادیث کو سننا، ان کے احکام پر عمل کرنا اور ان احادیث کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا سعادت و برکت اور دین و دنیا میں فلاح و کامیابی کا ذریعہ ہے اس پر پوری امت کا عقیدہ و ایمان ہے کہ احادیث نبوی کی تعلیم و تعلّم دونوں جہان کی خوش نصیبی اور رضائے الہٰی کا سبب ہے لیکن اس کے باوجود علماء لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کے حاصل کرنے، اس کے یاد رکھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں اگر بفرض محال کوئی فائدہ نہ ہوتا تو احادیث کی عظمت و رفعت کی بنا پر دین و دنیا دونوں جگہ حصول برکت و رحمت کے لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ مقدّس دعا ہی کافی ہوتی۔
Top