مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 218
وَعَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ طَلَبَ الْعِلْمُ لِیُجَارِیَ بِہِ لْعُلَمَآءَ اَوْلِیُمَارِیَ بِہِ السُّفَھَآءَ اَوْیَصْرِفَ بِہٖ وُجُوْہَ النَّاسِ اِلَیْہٖ اَدْخَلَہُ اﷲُ النَّارْرَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ۔
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت کعب ابن مالک ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے علم کو اس غرض سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعے علماء پر فخر کرے، بیوقوفوں سے جھگڑے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا۔ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے۔ (جامع ترمذی )

تشریح
علم اپنی لطافت اور نورانیت کے سبب ریاکاری، خودنمائی، غرور وتکبر اور بےجا فخر و مباہات کی غلاظتوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ جب علم کی اوّلین کرن یہی چاہتی ہے کہ وہ انسان کے دل و دماغ سے ظلم و جہل کی ہر تاریکی کو دور کر دے تو یہ کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے کہ ایک عالم جس کے دماغ میں علم کی مقدّس روشنی بھری ہو، ان غیر اسلامی وغیر اخلاقی چیزوں کا مظاہرہ کرے۔ علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک انسان تہذیب و شرافت اور تعلیم و ترقی کی انتہائی بلندیوں پر ہونے کے باوجود بھی سراپا انکسار متواضع بنا رہے، ریاکاری و خودنمائی سے الگ رہے اور اخلاق و احسان کی زندگی اختیار کئے رہے۔ اس لئے فرمایا جارہا ہے کہ اگر کوئی علم محض دینوی منفعت اور ذاتی وجاہت و عزت کی خاطر حاصل کرتا ہے۔ اگر اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے بعد لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں، عوام پر اپنی علم دانی کا سکّہ جما کر ان سے مال و دولت حاصل کیا جائے علم کو دنیا کے کاروبار اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے آلہ کار بنایا جائے اور نہ صرف یہ بلکہ علم حاصل کرنے کے بعد وہ علماء حق کے ساتھ غرور وتکبر کا معاملہ کرتا ہے، جاہلوں سے خواہ مخواہ الجھتا رہتا ہے، لوگوں کے سامنے بےجا فخر و مباہات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تو ایسے عالم کو کان کھول کر سن لینا چاہئے کہ چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے اور تقدیر الہٰی اس کی خواہشات اور اغراض کی سیادت و وجاہت بلکہ اس کو اس عدم اخلاص کی سزا بایں طور بھگتنی ہوگی کہ اسے جہنم کے شعلوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ ہاں، ایسا آدمی جو پہلے اپنی نیت میں مخلص تھا، اس کے ارادہ میں کسی قسم کو کوئی کھوٹ نہیں تھا اور اس کا مقصد حاصل کرنے سے محض اعلاء کلمۃ اللہ اور رضائے مولیٰ تھا مگر بعد میں بتقضائے فطرت و انسانی جبلت اس کی نیت میں کھوٹ پیدا ہوگیا اور اس میں نمود و نمائش اور ریاکاری کا اثر ہوگیا تو وہ اس حکم میں داخل نہیں ہوگا کیونکہ اس معاملہ میں بہر حال وہ معذور ہے۔
Top