مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 212
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمِ وَمُسْلِمَۃِ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَیْرِ اَھْلِہٖ کَمُقَلِّدِ الْخَنَازِیْرِ الْجَوْھَرَوَاللُّؤْلُؤْوَالذَّھَبَ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی الْبَیْھَقِیُّ فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ اِلٰی قَوْلِہٖ مُسْلِمِ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ مَتْنُہ، مَشْھُوْرٌوَاِسْنَادُہ، ضَعِیْفٌ وَقَدْرُوِیَ مِنْ اَوْجُہِ کُلُّھَا ضَعِیْفٌ۔
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے فرمایا۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور نااہل کو علم سیکھانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی سور کے گلے میں جواہرات، موتیوں اور سونے کا ہار ڈال دے۔ (ابن ماجہ) اور بیہقی نے اس روایت کو شعب الایمان میں لفظ مسلم تک نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کا متن مشہور ہے اور اسناد ضعیف ہیں اور یہ حدیث مختلف طریقوں سے بیان کی گی ہے اور وہ سب ضعیف ہیں۔ (ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث سے علم کی اہمیت و عظمت اور اس کی ضرورت واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے علم کا حاصل کرنا ضروری ہے، اس لئے کہ انسان جس مقصد کے لئے خلیفۃ اللہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے وہ بغیر علم کے پورا نہیں ہوسکتا۔ انسان بغیر علم کے نہ اللہ کی ذات کو پہچانتا ہے اور نہ اسے اپنی حقیقت کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ یہاں علم سے مراد علم دین ہے جس کی ضرورت زندگی کے ہر دور اور ہر شعبہ میں پڑتی ہے، مثلاً جب آدمی مسلمان ہوتا ہے یا احساس و شعور کی منزل کو پہنچتا ہے تو اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے اور عرفان الہٰی کی مقدس روشنی سے قلب و دماغ کی ہر ظلمت و کجروی کو ختم کرے۔ اسی طرح رسول کی نبوت و رسالت کا جاننا یا ایسی چیزوں کا علم حاصل کرنا جن پر ایمان و اسلام کی بنیاد ہے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ پھر جب عملی زندگی سے اسے واسطہ پڑتا ہے تو اسے ضرورت ہوتی ہے کہ اعمال کے احکام کا علم ہو۔ یعنی جب نماز کا وقت آئے گا تو اس پر نماز کے احکام و مسائل سیکھنا واجب ہوگا۔ جب رمضان آئے گا تو روزے کے احکام معلوم کرنا اس کے لئے ضروری ہوگا۔ اگر اللہ نے اسے مالی وسعت دی ہے اور صاحب نصاب ہے تو زکوٰۃ کے مسائل جاننا ضروری ہوگا۔ جب شادی کی تو بیوی کو گھر میں لایا تو حیض و نفاس کے مسائل طلاق وغیرہ اور ایسی چیزیں جن کا تعلق میاں بیوی کی باہمی زندگی اور ان کے تعلقات سے ہے ان کا علم حاصل کرنا واجب ہوگا۔ اسی طرح تجارت و زراعت اور خریدو فروحت کے احکام و مسائل سیکھنا بھی واجب ہوگا گویا زندگی کا کوئی شعبہ ہو خواہ اعتقادات ہوں یا عبادات، معاملات ہوں یا تعلقات، تمام چیزوں کی بصیرت حاصل کرنا اور ان کو جاننا سیکھنا اس پر فرض ہوگا، اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو اس کی وجہ سے وہ ہر جگہ حدود شریعت سے تجاوز کرتا رہے گا اور دینی احکام و مسائل سے ناواقفیت کی بنا پر اس کا ہر فعل و عمل خلاف شریعت ہوگا جس کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں علم سے مراد علم اخلاص اور آفات نفس کی معرفت ہے۔ یعنی ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نفس کی تمام برائیوں مثلاً حسد، بغض، کینہ اور کدورت کو پہچانیں اور ان چیزوں کا علم حاصل کریں جو اعمال خیر کو فاسد کرتی ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کی مقدس روشنی تو انہیں کے نصیب میں ہوتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیت طبع کا میلان اس طرف ہوتا ہے نیز جس کی جتنی استعداد و صلاحیت ہوتی ہے اسے علم سے اتنا ہی حصہ ملتا ہے۔ لہٰذا علم سکھانے میں اس بات کا خیال بطور خاص رکھنا چاہئے کہ جس کی جتنی استعداد ہو اور وہ جس معیار کی صلاحیت رکھتا ہو اسی اعتبار سے اسے علم سکھایا جائے۔ یہ نہ ہونا چاہئے کہ کسی آدمی کی استعداد و صلاحیت تو انتہائی کم درجہ کی ہے مگر علم اسے انتہائی اعلیٰ وارفع سکھایا جا رہا ہو اسی طرح ہر علم کے سکھانے کا موقع و محل ہوتا ہے۔ جو علم جس موقع پر ضروری ہو اور جس علم کا جو محل ہو اس کے مطابق سکھایا جائے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی عوام اور جہلاء کے سامنے یکبارگی تصوف کے اسرار و معانی اور اس کی باریکیاں بیان کرنے لگے تو انہیں اس سے فائدہ ہونا تو الگ رہا اور زیادہ گمراہ ہوجائیں گے۔
Top