مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 202
وَعَنْ شَقِےْقٍ قَالَ کَانَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ص ےُّذَکِّرُ النَّاسَ فِیْ کُلِّ خَمِےْسٍ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ ےَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ ص لَوَدِدْتُّ اَنَّکَ ذَکَّرْتَنَا فِیْ کُلِّ ےَوْمٍ قَالَ اَمَا اِنَّہُ ےَمْنَعُنِیْ مِنْ ذَالِکَ اَنِّیْ اَکْرَہُ اَنْ اُمِلَّکُمْ وَاَنِّیْ اَتَخَوَّلُکُمْ بِالْمَوْعِظَۃِ کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَتَخَوَّلُنَا بِھَا مَخَافَۃَ السَّامَۃِ عَلَےْنَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت شقیق ؓ (شقیق ابن مسلمہ نام اور کنیت ابو وائل ہے۔ آپ تابعی ہیں حجاج کے زمانہ میں وفات ہوئی بعض فرماتے ہیں کہ ٩٩ ھ میں وفات پائی ہے)۔ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات کے روز لوگوں کے سامنے وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے (ایک روز) ایک آدمی نے عرض کیا۔ اے ابوعبدالرحمن! میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے درمیان روزانہ وعظ و نصیحت کیا کریں۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ میں ایسا اس لئے نہیں کرتا کہ اس سے تم لوگ تنگ ہوجاؤ گے، میں نصیحت کے معاملہ میں تمہاری خبر گیری اس طرح کرتا ہوں جیسا کہ ہماری نصیحت کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ ہماری خبر گیری کیا کرتے تھے اور ہمارے اکتا جانے کا خیال رکھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ وعظ و نصیحت اور تبلیغ کے معاملہ میں اعتدال سے کام لینا چاہئے۔ ہر وقت اور ہر موقعہ پر وعظ و نصیحت نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ اس سے لوگوں کے دل اچاٹ ہوجاتے ہیں اور وہ اکتا جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی بات دل جمعی و سکون خاطر سے نہیں سنتے اس لئے ان پر کوئی اچھا اثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ، لعنت پھٹکار اور بد مزاجی و بد اخلاقی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے مخاطب کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے جس سے بجائے اس کے کہ وہ اس کا کوئی نیک اثر قبول کرے اور زیادہ منحرف ہوجاتا ہے۔ جو نصیحت اپنے وقت پر اور نہایت اخلاق و متانت اور انتہائی محبت و شفقت سے کی جاتی ہے دراصل وہی مخاطب کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا بہترین ثمرہ مرتب ہوتا ہے۔
Top