خراب آب وہوا کو چھوڑ دینے کا حکم
اور حضرت یحییٰ بن عبداللہ بن بحیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا کہ جس نے حضرت فردہ ؓ بن مسیک سے یہ روایت سنی کہ انہوں نے یعنی فروہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس ایک زمین ہے جس کو ابین کہا جاتا ہے اور وہ ہماری زراعت اور غلے کی زمین ہے یعنی وہ غلہ منڈی ہے، جہاں تجارت کے لئے دوسری جگہوں سے غلہ لا کر جمع کیا جاتا ہے اور دوسرے شہروں میں بھیجا جاتا ہے لیکن اس زمین کی وبا سخت ہے یعنی وہاں وبائی امراض زیادہ رہے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو (یعنی وہاں رہنا اور آنا جانا ترک کردو کیونکہ وہ طاعون زدہ آبادی کے حکم میں ہے) اور وبا (بیماری) کا قرب ہلاکت اور اتلاف کا باعث ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ اس زمین کو چھوڑنے کا حکم عدویٰ یعنی چھوت کے نقطہ نظر سے نہیں تھا بلکہ اصول طب اور حفظان صحت کے پیش نظر تھا کیونکہ وہاں کی آب و ہوا غیر موافق تھی اور یہ ظاہر ہے کہ آب و ہوا کا اچھا و صاف اور موافق ہونا حفظان صحت کی بنیاد اور جسم و بدن کی تندرستی و سلامتی کے لئے ضروری اسباب میں سے ہے اس کے برعکس آب و ہوا کا خراب و ناموافق ہونا صحت و تندرستی کے لئے انتہائی مضر اور بیماری و ہلاکت کا سبب ہوتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ وبا کی جگہ سے بھاگ جانا جاہئے وہ شاید اسی حدیث کے مضمون سے استدلال کرتے ہیں، ان حضرات کے مطابق اس شخص نے آنحضرت ﷺ سے وبا کی شکایت کی کہ اس زمین میں وبائیں پھیلتی ہیں لہٰذا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس زمین کو چھوڑ دو اور وہاں سے نکل جاؤ، کیونکہ وبائی امراض کی قربت و مخالطت ہلاکت کا باعث ہوتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اس حدیث سے مذکورہ استدلال قطعا غیر موزوں ہے کیونکہ یہ حدیث اس صورت سے متعلق نہیں ہے کہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی اور آپ ﷺ نے وہاں سے بھاگ جانے کو جائز رکھا بلکہ اس شخص کی شکایت کا تعلق دراصل اس بات سے تھا کہ وہ زمین ایسی ہے۔ جہاں وبائیں پھیلتی رہتی ہیں۔ گویا اس شخص نے اس زمین کو منحوس و مکروہ جانا، چناچہ اس کے باطنی احوال کی کمزوری کی بنا پر اس کو یہ اجازت دینا ہی بہتر سمجھا گیا کہ وہ اس زمین کو چھوڑ دے اور وہاں آنا جانا ترک کر دے تاکہ وہ ان وباؤں کو اس زمین کو نحوست سمجھ کر بےبنیاد عقیدے کا شکار نہ ہوجائے اور شرک خفی کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔ ویسے وبا کی جگہ کی مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال و مباحث ہیں مگر جس صورت کو علماء نے زیادہ بہتر قرار دیا ہے اور جس پر عمل کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ پیش از وقوع تو احتراز و اجتناب کیا جائے اور بعد از وقوع صبر و رضا کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ اگر کسی شہر و آبادی میں کوئی وبائی مرض پھیل جائے تو وہاں پہلے سے موجود لوگوں کو اس شہر و آبادی سے بھاگنا ناروا ہے بلکہ وہاں رہتے ہوئے توبہ استغفار کیا جائے اور اس وبا کے دفعیہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا و تضرع کیا جائے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، چناچہ بخاری و مسلم، وغیر ہما میں وہ احادیث موجود ہیں جن میں وبا زدہ آبادی سے نکلنے اور وبا سے ڈر کر بھاگنے کی ممانعت نیز ایسے مواقع پر صبر و اثبات کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب و تعریف منقول ہے۔ واضح رہے کہ وبا سے بھاگنے کو جائز قرار دینے والے حضرات کا اس حدیث سے استدلال کرنا یوں بھی غیر مناسب ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے جب کہ جو احادیث بھاگنے کی ممانعت کو ثابت کرتی ہیں ان کو بخاری، ومسلم نے نقل کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا لہٰذا یہ حدیث بخاری، ومسلم، کی احادیث کے معارض نہیں ہوسکتی علاوہ ازیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ علماء و محققین کے مطابق فروہ ؓ بن مسیک کوئی کثیر الروایت صحابی نہیں ہیں بلکہ ان سے ایک دو ہی حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور وہ بھی ایک ایسے راوی نے روایت کی ہیں جو بالکل مجہول غیر معروف ہیں یہاں تک کہ ان کا نام تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ بلکہ خود یحییٰ ابن عبداللہ ابن بحیر کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا یہ کوئی ثقہ راوی ہیں بھی یا نہیں؟ حاصل یہ کہ وبا سے ڈر کر بھاگنا بلا شک و شبہ ممنوع اور معصیت ہے اور اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ بھاگے کہ یہاں موجود رہا اور صبر و اثبات کی راہ اختیار کی تو یقینا وبا کا شکار ہو کر مرجاؤں گا اور اگر یہاں سے نکل بھاگا تو بچ جاؤں گا تو ایسا شخص نہ صرف بھاگنے کی معصیت ہی کا مرتکب ہوگا بلکہ اس فاسد اعتقاد کی بنا پر کافر ہوجائے گا اس اعتقاد کے بغیر بھاگنے والا معاصی ہوگا۔ وبا سے ڈر کر بھاگنے کو، زلزلہ آجانے یا آگ لگ جانے کی صورت میں گھر سے نکل بھاگنے پر قیاس کرنا بھی ایک مہمل بات ہے کیونکہ اول تو یہ قیاس نص کے خلاف ہے، دوسرے زلزلہ آجانے، گھر کے گر پڑنے اور مکان میں آگ لگ جانے کی صورت میں گھر میں موجود رہنا یقینی طور پر ہلاکت و تباہی کا موجب ہے، جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے اس کے برخلاف وباء سے نہ بھاگنے کی صورت میں مرجانا یقینی نہیں ہوتا بلکہ مشکوک و موہوم ہوتا ہے۔