مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4484
وعن سعد بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا هامة ولا عدوى ولا طيرة وإن تكن الطيرة في شيء ففي الدار والفرس والمرأة . رواه أبو داود .
بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے
اور حضرت سعد بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ ہامہ کوئی چیز ہے نہ ایک سے دوسرے کو بیماری کا لگنا کوئی حقیقت رکھتا ہے اور نہ شگون بد میں کوئی حقیقت ہے، اگر کسی چیز میں شگون بد ہوتا تو گھر میں گھوڑے اور عورت میں ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)

تشریح
طیرہ یعنی بدشگونی اور نحوست کے سلسلے میں مختلف احادیث منقول ہیں، جن احادیث سے طیرہ کے اثرات کی نفی اور اس کا اعتبار کرنے یا اس پر اعتقاد رکھنے کی نہی و ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ زیادہ ہیں، بعض احادیث سے طیرہ کے اثرات کی نفی اور اس کا اعتبار کرنے یا اس پر اعتقاد رکھنے کی نہی و ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ زیادہ ہیں، بعض احادیث سے عورت، گھوڑے اور گھر میں طیرہ کا ثبوت یقینی الفاظ کے ذریعہ مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ انما الشوم فی ثلث الفرس ولمرأۃ والدار یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ تین چیزوں میں نحوست ہے، گھر، گھوڑے اور عورت میں ایک روایت میں وہ تین چیزیں زمین، خادم اور گھوڑا بیان کی گئی ہیں۔ بعض احادیث سے ان تین چیزوں میں طیرہ کا ثبوت الفاظ شرط کے ساتھ مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اوپر نقل کی گئی حدیث یا اسی طرح دوسری حدیث کے الفاظ ہیں کہ اگر بد شگونی اور نحوست کوئی چیز ہوتی تو ان چیزوں میں پائی جاتی، بعض احادیث سے دوسری تمام چیزوں کی طرح ان تین چیزوں میں بھی نحوست کے پائے جانے کا انکار مفہوم ہوتا ہے، جیسا کہ ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جس کو انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے اور بعض احادیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان چیزوں میں نحوست کے پائے جانے کا اعتقاد زمانہ جاہلیت کے بےسروپا اعتقادات و خیالات سے ہے۔ غرض کہ اس بارے میں مختلف مفہوم کی روایتیں منقول ہیں لہٰذا ان سب کے درمیان وجہ مطابقت اور ان سب کا حاصل مقصد یہ ہے کہ تطیر یعنی شگون بد لینا اور کسی چیز کو منحوس سمجھنا بالکل بےاصل بات ہے اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ کچھ چیزوں میں نحوست ہوتی ہے تو جو چیزیں ایسی ہیں جو اپنی بعض حیثیتوں اور مآل کار کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان میں نحوست کا ہونا گمان کیا جاسکتا ہے اور ان کو نحوست کا موقع ومحل قرار دیا سکتا ہے۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ اس روایت میں فرمایا گیا ہے۔ لوکان شی سابق القدر لسبقۃ العین یعنی اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہو تو وہ نظر بد ہوتی۔ قاضی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں پہلے تو طیرہ کا انکار کرنا اور اس کے بعد یہ شرطیہ جملہ (کہ اگر کسی چیز میں شگون بد ہوتا تو گھر میں گھوڑے میں ایک عورت میں ہوتا) لانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تطیر یعنی بدشگونی کی نحوست کا انکار اس مفہوم میں ہے اگر نحوست کا کوئی وجود ثبوت ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا کیونکہ یہی تین چیزیں نحوست کا موقع و محل ہوسکتی ہیں، لیکن جب ان چیزوں میں بھی نحوست کا کوئی وجود نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نحوست سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتی۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر ان چیزوں میں نحوست کا کوئی وجود مفہوم ہوتا ہے تو اس معنی میں کہ اگر عورت زبان دراز، بےحیاء اور بدکار ہو یا اس کی کوکھ سے بچہ جنم نہ لیتا ہو یا اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہو اور یا مکروہ صورت و بدشکل ہو تو اس اعتبار سے اس کو منحوس کہا جاتا ہے گھر میں نحوست کا ہونا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر تنگ و تاریک ہو اس کا پڑوس برے ہمسایوں پر مشتمل ہو اور اس کی آب و ہوا ناموافق ہو، اسی طرح گھوڑے میں نحوست کا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھوڑا سرکش و شریر ہو، کھانے میں تو تیز ہو لیکن چلنے میں مٹھا ہو، خصوصیات کے اعتبار سے کم تر ہو لیکن قیمت کے اعتبار سے گراں ہو اور مالک کی ضرورت و مصالح کو پورا نہ کرتا ہو، گھوڑے ہی پر خادم کو قیاس کیا جاسکتا ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نحوست سے شرعی و طبعی کراہت و ناپسندیدگی مراد ہے اس اعتبار سے شوم و تطیر کی نفی تو عموم و حقیقت پر محمول ہوگی یعنی حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جس میں نحوست کا کوئی وجود ہو لیکن جن احادیث سے بعض چیزوں میں نحوست کا ہونا مفہوم ہوتا ہے ان میں نحوست سے مراد ان چیزوں کا طبعی طور پر یا کسی شرعی قباحت کی بنا پر ناپسندیدہ ہونا ہے۔
Top