مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4470
سحر کی تعریف وحقیقت
اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ سحر کی تعریف و حقیقت کیا ہے اور یہ سحر کی کونسی قسم موجب کفر ہے کونسی موجب فسق ہے اور کونسی قسم مباح ہے یعنی شریعت میں جائز ہے؟ اس کی تفصیل اگرچہ بہت طویل ہے لیکن اجمالی طور پر اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ سحر کی حقیقت و تعریف یہ ہے دعاؤں اور اسماء الہٰی کے عملیات وغیرہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طاقت حاصل کرنے کی بجائے خفیہ اسباب کی مزاولت (یعنی مخفی طاقتوں کی پرستش وجہیہ سائی اور ان کی تسخیر) کے ذریعہ خوارق عادات اور افعال عجیبیہ پر قدرت حاصل کرنا اور ان خوراق عادات اور افعال عجیبیہ کی نسبت قادر مطلق پروردگار عالم کی طرف کرنے کی بجائے غیر اللہ یعنی ان مخفی طاقتوں یا اپنی ذات کی طرف کرنا۔ اور چونکہ عالم میں اسباب خفیہ کئی طرح کے ہیں اس لئے سحر کی قسمیں بھی متعدد ہیں جن کو منضبط طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ خفیہ سبب یا تو روحانیت کی تاثیر ہے، یا جسمانیت کی تاثیر پھر روحانیت یا تو کلیہ مطلق ہیں جیسے کواکب و افلاک یا عناصر کی روحانیت، یا وہ روحانیت جزیہ خاصہ ہیں جیسے امراض اور جن و شیاطین کی روحانیات اور وہ ارواح جو جسم انسانی سے نکل کر جاتی ہیں اور جن کو مسخر کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں تک جسمانیات کا تعلق ہے تو وہ جسمانیات یا تو ترکیب اور اجتماع کیفیات کے سبب سے تاثیر کرتے ہیں جس سے عجیب و غریب باتیں ظہور میں آتی ہیں یا خواص کے سبب سے تاثیر کرتے ہیں یعنی ان کی صورت نوعیہ کسی ترکیب اور اجتماع کیفیات کے توسط کے بغیر خود بخود تاثیر کرتی ہے جس طرح کہ مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ان روحانیات یعنی ان پوشیدہ ومخفی طاقتوں سے مناسبت کیونکر حاصل ہوتی ہے اور ان کی تاثیر کو کس طرح مائل کیا جاتا ہے تو اس کے مختلف طریقے ہیں، بعض لوگ چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان روحانیت کا نام جپتے ہیں اور حصول مقصد کے لئے ان سے ملتجی ہوتے ہیں بعض لوگ ان کی تصویر بنا کر اس کے سامنے نذر بھینٹ چڑھاتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو ان کو مرغوب ہوسکتے ہیں، یا مخصوص طریقہ اور مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ حروف والفاظ بلالحاظ ترکیب پڑھتے ہیں جن کے ذریعہ وہ ارواح میں سے کسی روح کی بڑائی کی طرف یا ایسے عجیب و غریب فعل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو اس سے کبھی سرزد ہوا تھا اور جس کی وجہ سے عام وخاص اس کی مدح وثناء میں رطب اللسان ہوئے تھے، غرضیکہ سحر کرنے کی مختلف عملیات اور مختلف صورتیں ہیں اور ان عملیات اور صورتوں کے نتیجہ میں سحر کی متعدد اور کثیر قسمیں سامنے آتی ہیں، لیکن جو قسمیں زیادہ مشہور ہیں وہ چند ہیں اور ان میں پہلی قسم جو سب سے بڑی قسم سمجھی جاتی ہے کلدانیوں اور بابل کا سحر ہے اور اسی کو باطل کرنے کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے اس سحر کے علم کی اصل ہاروت وماروت سے چلی ہے کہا جاتا ہے کہ بابل کے لوگ ہاروت و ماروت سے اس سحر کا علم اور طریقہ سیکھتے تھے اور پھر اس کے ذریعہ اپنے مقصد حاصل کیا کرتے تھے، نیز انہوں اس میں مختلف تحقیق و تجربے کئے تھے اور اس کے علم کو بہت وسیع و ہمہ گیر بنایا، اسی طرح کلدانیین، جو بابل میں سکونت رکھتے تھے اس علم کے حصول کے لئے مختلف محنت و جستجو میں لگے رہتے تھے اور اس کے ذریعہ نت نئی چیزیں پیدا کرتے تھے۔ تاریخ کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ بابل کے حکماء اور اس فن کے ماہرین نے نمرود کے زمانہ میں اپنے شہر بابل میں کہ جو نمرود کا دارالسلطنت تھا اس سحر کے ذریعہ ایسے چھ ہوشربا اور محیر العقول طلسمات بنا رکھے تھے، جن کی حقیقت و کیفیت جاننے سے انسان کی عقل و ذہانت عاجز رہتی تھی۔ اول یہ کہ انہوں نے تانبے کی ایک بطخ بنار کھی تھی جو شہر میں ناپسندیدہ اور مضر افراد کے داخل ہونے کی خبر دیتی تھی، چناچہ اگر کسی دوسرے ملک سے کوئی جاسوس یا دشمن یا کوئی چور وغیرہ شہر میں داخل ہوتا تو اس بطخ میں سے مخصوص آواز نکلنے لگتی تھی، شہر کے تمام لوگ اس آواز کو سن کر اس کا مقصد جان لیتے تھے۔ اور اس طرح وہ اس جاسوس اور چور کو پکڑ لیتے تھے، دوسرے یہ کہ انہوں نے ایک نقارہ بنار کھا تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ شہر میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہوجاتی تو وہ اس نقارہ پر چوٹ مارتا، جس کے نتیجے میں اس سے یہ آواز نکلتی کہ تمہاری فلاں چیز فلاں جگہ ہے، چناچہ تلاش کرنے کے بعد وہ اسی جگہ سے ملتی۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے گم شدہ لوگوں کو دریافت کرنے کے لئے ایک آئینہ بنا رکھا تھا۔ جب شہر میں کسی کے گھر کا کوئی فرد غائب ہوجاتا تو وہ اس آئینے کے پاس آتا اور اس میں اپنے گمشدہ فرد کو حال دیکھ لیتا وہ گمشدہ خواہ کسی شہر میں ہوتا، خواہ جنگل میں اور خواہ کسی کشتی وغیرہ میں سفر کرتے ہوئے یا کسی پہاڑ پر، اسی طرح خواہ وہ بیمار ہوتا یا تندرست، خواہ مفلس وقلاش ہوتا یا مال دار اور خواہ زخمی ہوتا یا مقتول، غرضیکہ وہ جس جگہ اور جس حالت میں ہوتا اسی جگہ اور اسی حالت کے ساتھ اس آئینہ میں نمودار ہوجاتا۔ چوتھا طلسم یہ تھا کہ انہوں نے ایک حوض بنایا تھا جس کے کنارے وہ سال بھر میں ایک دن جشن مناتے تھے چناچہ شہر کے تمام سردار اور معززین اپنی پسند کے مشروب لے کر اس حوض کے کنارے جمع ہوتے اور جو شخص اپنے ساتھ جو مشروب لاتا اس کو اس حوض میں ڈال دیتا، پھر جب ساقی کا فرض انجام دینے والے لوگ اس کے کنارے کھڑے ہو کر لوگوں کو پلانا شروع کرتے اور اس حوض میں سے نکال نکال کردیتے تو ہر شخص اس کو وہی پسندیدہ مشروب ملتا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ پانچواں طلسم یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں کے لڑائی جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے ایک تالاب بنایا تھا اگر دو آدمیوں کا آپس میں کوئی تنازعہ ہوتا اور یہ ثابت نہ ہو پاتا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر۔ تو دونوں فریق اس تالاب کے کنارے آتے اور پھر اس میں اتر جاتے چناچہ جو شخص حق پر ہوتا اس تالاب کا پانی اس کے ناف کے نیچے رہتا اور وہ غرق نہ ہوتا اور جو شخص حق پر نہ ہوتا اس کے سر سے اوپر چلا جاتا اور اس کو ڈبو دیتا ہاں اگر وہ فریق مخالف کے حق کو مان لیتا اور اپنے دعوے کو ترک کردیتا تو پھر غرقابی سے نجات پاتا۔ اور چھٹا طلسم یہ تھا کہ انہوں نے نمرود کے محل کے میدان میں ایک درخت لگا رکھا تھا، جس کے سایہ میں درباری بیٹھتے تھے لوگوں کی تعداد جس قدر بڑھتی رہتی اسی قدر اس کا سایہ بھی بڑھتا رہتا تھا یہاں تک کہ اگر تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی تو سایہ بھی اسی اعتبار سے زیادہ ہوجاتا تھا مگر جب اس عدد سے ایک آدمی بھی زیادہ ہوجاتا تو پھر سایہ بالکل ختم ہوجاتا تھا اور تمام لوگ دھوپ میں بیٹھے رہ جاتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس بارے میں بابل کے لوگ ہی شغف ودلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا بادشاہ نمرود بھی بہت زیادہ غلو رکھتا تھا اور اس علم کی پوری طرح سرپرستی کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سحر کی یہ قسم سب سے زیادہ سخت اور مشکل ہے لیکن اگر کوئی شخص سخت ترین ریاض و محنت اور مسلسل جدوجہد اس کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور اس فن کو جان لیتا ہے اور پھر اس کی اتنی زبردست طاقت وقدرت حاصل ہوجاتی ہے۔ کہ وہ انسانی عادت مخالف امور کو ظاہر کرنے اور انسانی عادات کے موافق امور کو روک دینے پر قادر ہوجاتا۔ جیسے وہ ان امراض کا علاج بھی کرسکتا ہے جس کے معالجہ سے دنیا بھر کے طبیب عاجز ہوگئے ہوں مثلاً برص اور جذام وغیرہ کیونکہ ایسا شخص روحانیات یعنی طاقتوں (جیسے جن و شیاطین) کے ذریعہ تدبیر وعمل کرتا ہے جب کہ طبیب جسمانیت (دواؤں) کے ذریعہ تدبیر کرتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اجسام و ارواح کے ساری حقیقتیں منکشف کردیں اور انہوں نے ہر جسم اور ہر روح کو قادر مطلق کے دست قدرت کے تحت مجبور و بیکس دیکھا تو سب سے منہ پھیر کر ذات واحد حقیقی کی طرف متوجہ ہوگئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورت انعام میں فرمایا۔ آیت (وکذلک نری ابراہیم ملکوت السمٰوٰت والا رض تا وما انامن المشرکین) یعنی ہم نے ایسے طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں تاکہ وہ عارف ہوجائیں اور کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا کہ یہی میرا رب ہے سو جب وہ غروب ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ جب سورج کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے سو جب وہ غروب ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم! بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔ واضح رہے کہ اوپر سحر کی جو قسم ذکر کی گئی ہے وہ خالص کفر اور شرک محض ہے کیونکہ اس سحر کے علم کا حصول جن، پندرہ شرائط کی پانبدی پر موقوف ہے ان میں سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ ارواح کو عالم الغیب اور احوال قلب پر مطلع مانا جائے۔ اور ان کے تئیں عجز و جہل کا گمان ہرگز نہ کیا جائے ورنہ وہ ارواح اس کا کہنا بالکل نہیں مانیں گی اور اس کے مقصد تک نہیں پہنچائیں گی۔۔ کواکب و سیارات کی روحانیات یعنی ان کی قوتوں سے استمداد کرنے اور ان کی تاثیر کو متوجہ کرنے کے لئے جو طریقہ بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے روحانیات قمر کی تاثیر کو ان الفاظ کے ورد کے ذریعہ متوجہ کرتے ہیں۔ ایہا الملک الکریم والسید الرحیم مرسل الرحمۃ ومنزل النعمۃ اور عطارد کی تاثیر کو متوجہ اور اپنے زیر اثر کے لئے ان الفاظ کا ورد کیا جاتا ہے۔ کل ماحصل لی من السحر فہو منک وکل ما یندفع من الشر منی فہو منک دیگر کواکب وسیارات سے استمداد کرنے اور ان کی تاثیر کو متوجہ کرنے کے لئے جن الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہوگا ان کو بھی انہی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنا جو ان الفاظ سے آشکار ہوتے ہیں اور اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالنا عقیدہ تو حید، تعلیمات اسلامی اور ملت حنفی کے سراسر منافی ہے۔ سحر کی دوسری قسم وہ ہے جس میں جنات و شیاطین کو مسخر کیا جاتا ہے اور ان سے امداد واعانت طلب کر کے مقصد حاصل کیا جاتا ہے یہ قسم سہل الحصول بھی ہے اور کثیر ارواج بھی ہے، جنات و شیاطین کی اس تسخیر میں جن چیزوں کا اختیار کرتا ضروری ہوتا ہے ان میں بعض مخصوص الفاظ و اعمال کے ذریعہ ان سے تعلق پیدا کرنے کے علاوہ ان کی جہیہ سائی کرنا ان کے نام پر نذریں چڑھانا، بھینٹ دینا، ان کی پسندیدہ خوشبو وغیرہ ان کے آنے کی جگہوں پر رکھنا اور بسانا، جس جگہ ان کے آنے کا تصور ہو وہاں ہاتھ جوڑ کر بیٹھنا اور ان کو اپنے سامنے موجود جانتے ہوئے رونا گڑگڑانا، منت خوشامد کرنا اور ان سے حاجت براری کی التجا کرنا وغیرہ وغیرہ خاص عمل ہیں اور ان سب چیزوں سے صریح کفر لازم آتا ہے۔ سحر کی تیسری قسم وہ ہے۔ جس میں ارواح کو مسخر کیا جاتا ہے جو جسم چھوڑ چکی ہوتی ہیں، اس قسم کو اختیار کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی ایسے مرے ہوئے انسان کا پتہ لگایا جائے جو قوی القلب رہا ہو، پھر بعض مخصوص عملیات اور مخصوص الفاظ کے ورد کے ذریعہ کہ جو بڑے بڑے جنات و شیاطین کے ذکر اور ان کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں ان ارواح کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ چناچہ ان الفاظ وعملیات کے زور سے اور نذرانے و بھینٹ چڑھانے کے ذریعہ اس روح کو اس طرح اپنے قابو واختیار میں کرلیا جاتا ہے کہ غلام و نوکر کی طرح اس کو جو کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کو وہ انجام دیتی ہے یہ عمل بھی کفر کو لازم کرتا ہے یا کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے، نیز اغلب یہ ہے کہ اس طرح کی ارواح کہ جو ان سفلی وشہوانی عملیات کے ذریعہ متوجہ ہوتی ہیں دراصل ان انسانوں کی ارواح ہوتی ہیں۔ جو کفر و شرک و فسق وخبث کی حالت میں مرجاتے ہیں لہٰذا اس عمل سحر میں خباثت کی مخالفت بھی لازم آتی ہے، سحر کی چوتھی قسم وہ ہے جس میں بعض جنات کی ارواح کے ذریعہ کسی شخص کے خیالات و تصورات میں خلل ڈالتے اور اس کے ذہن کو فاسد کردیتے ہیں کہ اس کو حقیقت کے خلاف کچھ کا کچھ نظر آنے لگتا ہے یا وہ اپنی ہی صورت ہائلہ متخلیہ سے ڈرنے لگتا ہے اور یا غیر واقعی چیزوں کو واقعی سمجھنے لگتا ہے، سحر کی اس قسم کو نظر بندی یا خیال بندی کہتے ہیں اور بعض مفسرین نے آیت کریمہ (يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) 20۔ طہ 66) کے تحت کہا ہے کہ فرعون کے ساحروں کا سحر اسی قسم کا تھا جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو واسطہ پڑا تھا، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر نظر آنے لگی تھیں جو فرعون کے جادوگروں نے ان کو ڈرانے کے لئے ان کے سامنے ڈال دی تھیں، اس طرح کا سحر اگر نبی کریم ﷺ کے لئے اس کے مقابلہ پر ہوگا کہ اس کی نبوت کی دلیل و شہادت کو ختم کردیا جائے یا کسی ولی یا بزرگ کی حیثیت کو مجروح کرنے کے لئے اس کے مقابلہ پر پیش کیا جائے، تو حرام اور گناہ کبیرہ کے حکم میں ہوگا اور اگر اس کی نظر بندی کا مقصد کسی شخص کو دھوکا و فریب میں مبتلا کرنا یا کسی شخص کی عزت و آبرو یا اس کے مال میں خیانت کرنا ہو تو گناہ کبیرہ کے حکم میں ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ سحر کی یہ قسم بنفسہ کفر نہیں ہے لیکن کسی شخص کے خیالات و تصورات پر اثر انداز ہونے کے لئے یا یوں کہا جائے کہ اس نظر بندی یا شعبدہ بازی کو کامیاب کرنے کے لئے چونکہ جنات کی ارواح سے استمداد کرنا یا جنات کے ارواح کو جپنا ضروری ہوتا ہے اس لئے کفر لازم آتا ہے، بشرطیکہ اس استمداد اور اسماء کو جپنے میں ان جنات کی اتنی زیادہ تعظیم و توقیر کا اظہار کیا جائے جو عقیدہ توحید کے منافی ہو۔ سحر کی پانچویں قسم وہ ہے جس میں انسان خود اپنے دھیان اور حو اس خمسہ کی قوتوں کو دماغ میں مجتمع کرتے ہوئے کمال یکسوئی پیدا کر کے ایک ایسی قوت وقدرت حاصل کرلیتا ہے اس کے ذریعہ وہ اس خیال کو جو اس کی قوت متخلیہ میں ہوتا ہے (اور جس کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے) مشکل کر کے سامنے لے آتا ہے، جسمانی طول، عرض عمق کی حدود وقیود سے آزادی حاصل کرتے ہوئے مسمریزم کی طاقت سے شعبدے دکھلاتا ہے اور نظر ایک سے دو متصل چیزوں کو متصل کر دکھاتا ہے۔ اور دو علیحدہ علیحدہ چیزوں کو ملا کر دکھلا دیتا ہے۔ سحر کی اس قسم کا اب نام و نشان بھی موجود نہیں ہے، لیکن پچھلے زمانہ میں ہندوستان کی بعض قدیم اقوام میں یہ قسم بہت رائج تھی اس قسم کے حصول کے لئے جہاں اور بھی شرائط ہیں، انہیں میں دو سب سے زیادہ اہم اور ضروری شرط کھانے پینے میں بالکل کمی اور لوگوں سے گوشہ نشینی اختیار کرلینا ہے اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اس کے ذریعہ کسی مباح چیز کا حصول مقصود ہو جیسے دو زنا کاروں کے درمیان جدائی ڈالنا یا کسی ظالم کو مار ڈالنا تو سحر کی یہ قسم جائز ہوگی اور اگر کسی ممنوع چیز کا حصول مقصود ہو جیسے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا یا کسی معصوم انسان کو ہلاک کردینا تو پھر یہ قسم بھی حرام ہوگی۔ سحر کی چھٹی قسم وہ ہے جس میں دواؤں یا اشیاء کے مخفی خواص معلوم کر کے ان کے ذریعہ عجیب و غریب کرشمے دکھائے جاتے ہیں اور چونکہ عام لوگ اس مخفی خواص سے قطعا لاعلم ہوتے ہیں اس لئے اکثر دنیا اور پیر و فقیر اور جوگی اپنی حیلہ سازیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ میں لوگوں پر اپنی کرامت ظاہر کرنے کے لئے اپنی انگلیوں کو روشن کر دوں تو اس کا طریقہ اختیار کیا سکتا ہے کہ تھوڑا سا نورہ کابلی سرکہ میں بھگو کر اس میں تھوڑا سا کف دریا ملا دیا جائے اور پھر انگلی پر اس کا لیپ کیا جائے اور جس جگہ لیپ کیا جائے وہاں رال ٹپکا دی اب لوگوں کی کسی ایسی مجلس میں کہ جہاں شمع یا چراغ جلتا ہو اس انگلی کو چراغ کے سامنے کردیا وہ انگلی روشن ہوجائے گی اور جلے گی نہیں۔ سحر کی ساتویں قسم وہ ہے جس میں ایجاد کئے گئے عجیب و غریب آلات کی مدد سے بعض چیزوں کو ترکیب دے کر حیرت انگیز امور انجام دیئے جائیں! ان آلات کو ایجاد کرنا عام طور پر مختلف علوم وفنون میں تعمق اور تحقیق و جستجو پر منحصر ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ فرعون کے ساحروں کی جادو گری نظر بندی اور شعبدہ بازی کے ساتھ اس طرح کی جنی مہارت کا بھی پر تو تھی، آج کل کی سائنسی ایجادات کی بھی اس قسم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ سحر کی اٹھویں قسم وہ ہے جس میں ہاتھ کی صفائی کے ذریعہ مختلف شعبدے دکھلا کر لوگوں کو متحیر کیا جاتا ہے سحر کی اس قسم میں ہاتھ کا سرعت کے ساتھ چند مخصوص پوشیدہ حرکات اور تبدیل امثال کردینا ہے خفیہ سبب ہوتا ہے۔ سحر کی یہ تینوں آخری قسمیں نہ تو کفر ہیں اور نہ حرام، ہاں اگر ان کو کسی حرام چیز کے حصول یا کسی حرام کام کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے تو اس بنا پر ان پر حرمت کا حکم ثابت ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ سحر کی جو آٹھ قسمیں بیان کی گئی ہیں یہ صرف لفظی اعتبار سے ہیں، کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو محیر العقول ہو اور جس کا سبب و ذریعہ نظروں سے پوشیدہ ہو اگر سحر یا جادو کے اصطلاحی وحرفی مفہوم اور اس کی مشہور و تعریف و حقیقت کا اعتبار کیا جائے تو اصولی طور پر سحر کی تین ہی قسمیں ہونی چاہئیں ایک تو وہ سحر جس میں کواکب و سیارات کی قوتوں سے استمداد کر کے ہوشربا کرشمے اور محیر العقول طلسمات ظاہر کئے جائیں۔ دوسرا وہ سحر جس میں جنات و شیاطین اور مردہ انسانوں کی ارواح کو مسخر کر کے حاجت روائی کی جائے۔ اور تیسرا وہ سحر جس میں اپنے دھیان اور خو اس خمسہ کی قوتوں کو دماغ میں مجتمع کرتے ہوئے نظر بندی اور شعبدہ بازی کا کمال حاصل کیا جائے۔
Top