مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4457
وعن أبي أمامة بن سهل بن حنيف قال رأى عامر بن ربيعة سهل بن حنيف يغتسل فقال والله ما رأيت كاليوم ولا جلد مخبأة قال فلبط سهل فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل له يا رسول الله هل لك في سهل بن حنيف ؟ والله ما يرفع رأسه فقال هل تتهمون له أحدا ؟ فقالوا نتهم عامر بن ربيعة قال فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عامرا فتغلظ عليه وقال علام يقتل أحدكم أخاه ؟ ألا بركت ؟ اغتسل له . فغسل له عامر وجهه ويديه ومرفقيه وركبتيه وأطراف رجليه وداخلة إزاره في قدح ثم صب عليه فراح مع الناس ليس له بأس . رواه في شرح السنة ورواه مالك وفي روايته قال إن العين حق توضأ له .
نظر لگنے کا ایک واقعہ
اور حضرت ابوامامہ ؓ بن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن) عامر بن ربیعہ ؓ نے (میرے والد) سہل بن حنیف ؓ کو نہاتے ہوئے دیکھا۔ تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوبصورت بدن کبھی) نہیں دیکھا۔ اور پردہ نشین (خوبصورت عورت) کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک وخوش رنگ) نہیں دیکھی۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گرپڑے) چناچہ ان کو اٹھا کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ سہل کے علاج کے لئے کیا تجویز کرتے ہیں! اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ آنحضرت ﷺ نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ( جی ہاں) عامر بن ربیعہ ؓ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( یہ سن کر) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے بارک اللہ علیک تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا) پھر آپ ﷺ نے عامر کو حکم دیا کہ ( تم سہل کے لئے اپنے اعضاء کو) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو چناچہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کو لھوں) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فورا اچھے ہوگئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا ( شرح السنتہ مؤطا امام مالک) اور امام مالک کی ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ٹوکنے والے سے فرمایا کہ نظر بد حق ہے تم نظر زدہ کے لئے وضو کرو چناچہ اس نے نظر زدہ کے لئے وضو کیا

تشریح
نووی کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحیقق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل وسمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لا حاصل ہے مارزی نے کہا ہے کہ مذکورہ اعضاء جسم کو دھونے کا حکم وجوب کے طور پر ہے لہذا نظر لگانے والے کو اس بات پر طاقت کے ذریعہ مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ نظر زدہ کے لئے مذکورہ وضو کرے نیز انہوں نے کہا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنا انسانیت سے بعید ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ نظر زدہ کے ہلاک ہوجانے کا خوف ہو قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ جو شخص نظر لگانے کے بارے میں مشہور و معروف ہوجائے تو اس سے اجتناب کرنا اور اس کے سامنے آنے میں احتیاط کرنا لازم ہے اور امام سربراہ حکومت کے لئے مناسب ہے کہ وہ ایسے شخص کو لوگوں میں آنے جانے اور بیٹھنے اٹھنے سے روک دے اور اس پر یہ پابندی عائد کر دے کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہا کرے گھر سے باہر نہ نکلا کرے اور اگر وہ شخص محتاج و فقیر ہو کہ اپنی گزر و بسر کرنے کے لئے لوگوں کے پاس آنے جانے پر مجبور ہو تو بیت المال سرکاری خزانے سے اس کے لئے بقدر کفایت وظیفہ مقرر کر دے تاکہ وہ گزر اوقات کرسکے حاصل یہ کہ ایسے شخص کا ضرر جذامی کے ضرر سے بھی سخت و شدید ہے لہذا اس بارے میں احتیاط لازم ہے امام نووی نے اس قول کی تائید کی ہے اور کہا کہ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے بالکل صحیح اور ناقابل بردید ہے کیونکہ اس کے متعلق علماء میں سے کسی کا بھی کوئی اختلافی قول ہمارے علم میں نہیں ہے
Top