مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4456
وعن الشفاء بنت عبد الله قالت دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا عند حفصة فقال ألا تعلمين هذه رقية النملة كما علمتيها الكتابة ؟ . رواه أبو داود .
نملہ کا منتر
اور حضرت شفاء بنت عبداللہ ؓ کہتی ہیں کہ (ایک دن) میں ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس بیٹھی تھی کہ رسول کریم ﷺ اندر تشریف لائے اور مجھ کو (دیکھ کر) فرمایا کہ کیا تم ان کو (یعنی حفصہ کو) نملہ کا منتر نہیں سکھا دیتیں جس طرح کہ تم نے ان کو لکھنا سکھایا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
شفاء۔ عبداللہ بن شمس کی بیٹی اور قریشی عدوی ہیں ان کا اصلی نام لیلی تھا اور شفاء لقب تھا جو اتنا مشہور ہوا کہ اصل نام پر غالب آگیا، انہوں نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اونچے درجہ کی عاقلہ فاضلہ عورتوں میں سے تھیں، نبی کریم ﷺ دوپہر کو قیلولہ کے لئے ان کے یہاں تشریف لے جاتے اور وہاں آرام فرماتے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے لئے بستر اور لنگی کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ آرام کے وقت یہ دونوں چیزیں آپ ﷺ کی خدمت میں آئیں۔ نملہ کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان پھنسیوں کو نملہ کہتے ہیں جو پسلیوں پر نکلتی ہیں اور بہت تکلیف پہنچاتی ہیں، جو شخص ان پھنسیوں میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان پھنسیوں کی جگہ چیونٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے ان پھنسیوں کو نملہ چیونٹی کہا جاتا ہے۔ حضرت شفاء ؓ مکہ میں ان نملہ کے دفعیہ کے لئے منتر پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتی تھیں، جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے اور یہ بھی وہاں پہنچیں تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے زمانہ جاہلیت میں نملہ کے دفعیہ کے لئے ایک منتر پڑھا کرتی تھیں، اب چاہتی ہوں کہ وہ منتر پڑھ کر آپ ﷺ کو سناؤں تاکہ آپ ﷺ اس کے بارے میں حکم دیں کہ اس منتر کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس منتر کو سن کر اس کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت دیدی اور پھر فرمایا کہ یہ منتر حفصہ ؓ کو بھی سکھا دو۔ رقیہ نملہ سے مراد وہ چند کلمات ہیں جو عرب کی عورتوں میں مشہور تھے، جن کو وہ رقیہ نملہ کہتی تھیں ورنہ نملہ کا جو منتر حقیقی منتر تھا وہ تو دراصل خرافات کا مجموعہ تھا جس کو پڑھنے سے آنحضرت ﷺ نے منع فرما دیا تھا ظاہر ہے کہ آپ ﷺ اس منتر کے سکھانے کا حکم کیوں فرماتے وہ مشہور کلمات جن کو عرب کو عورتیں رقیہ نملہ کہتی تھیں یہ ہیں الغروس تنتعل وتختضب وتکعل وکل شیء تفتعل غیر انہا والا نقصی الرجل یعنی دلہن کو چاہئے کہ مانگ چوٹی اور زیب وزینت کرے، ہاتھ پاؤں رنگے، سرمہ لگائے ہر بات کرے مگر مرد کی نافرمانی نہ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا شفاء سے یہ فرمانا کہ حفصہ ؓ کو نملہ کا منتر سکھا دو حقیقت میں تعریض کے طور پر تھا اور اس کا ایک خاص پس منظر تھا اور وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ ؓ کو ایک راز کی بات سنائی تھی، لیکن حفصہ ؓ نے اس کو فاش کردیا اس کا ذکر قرآن کریم کی سورت تحریم میں بھی کیا گیا ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے شفاء سے مذکورہ ارشاد فرما کر گویا حضرت حفصہ ؓ کو نصیحت کی اور ان کو متنبہ کیا کہ تم نے میرے بتائے ہوئے راز کو ظاہر کر کے شوہر کی نافرمانی کی ہے جو نہ صرف تمہارے مقام و مرتبہ کے منافی بات ہے بلکہ وفا شعار عورت کی اس خصوصیت کے بھی منافی ہے کہ وہ شوہر کی نافرمانی کرنا گوارا نہیں ہوتی۔ ایک حدیث میں عورتوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت منقول ہے، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا لاتعلم الکتابۃ اس کے برخلاف اس حدیث میں اس کا جواز ثابت ہوتا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس وقت سے ہو جب کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ممانعت ارشاد نہیں فرمائی تھی گویا ممانعت والی حدیث بعد کی ہے اور یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ پہلے کی ہے۔ بعض حضرات اس بارے میں کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی ایک خاص حیثیت تھی اس بنا پر بعض احکام و فضائل میں بھی ان کو مخصوص رکھا گیا ہے لہٰذا ممانعت کا تعلق اور تمام عورتوں سے ہے کہ ان کا اس فتنہ و برائی میں مبتلا ہوجانا عین ممکن ہے جو مذکورہ ممانعت کی بنیاد ہے۔ جب کہ ازواج مطہرات کے بارے میں اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے ان کو لکھنا سیکھنے کی اجازت تھی۔ خطابی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو لکھنا سکھانا مکروہ ہے اور ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ اس وقت یعنی زمانہ رسالت میں عورتوں کو لکھنا سکھانا جائز ہو لیکن فتنہ و فساد میں مبتلا ہوجانے کے خوف کے سبب سے بعد کی عورتوں کے لئے جائز نہ ہو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ لکھنا سکھانے کا مذکورہ حکم صرف حضرت حفصہ ؓ کے لئے تھا دوسری عورتوں کے لئے نہیں۔
Top