مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4452
وعن عيسى بن حمزة قال دخلت على عبد الله بن عكيم وبه حمرة فقلت ألا تعلق تميمة ؟ فقال نعوذ بالله من ذلك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تعلق شيئا وكل إليه . رواه أبو داود .
جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی
اور حضرت عیسیٰ بن حمزہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے) تو اسی چیز کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
طیبی کے قول کے مطابق بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے تعویذ باندھنے سے اللہ کی پناہ چاہی تھی کیونکہ وہ مقام توکل و رضا پر فائز تھے اور انہوں نے تعویذ باندھنے کو مرتبہ کو توکل کے منافی سمجھا۔ اگرچہ دوسروں کے لئے یہ جائز ہے آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تعویذ باندھتا ہے یا گنڈا ڈالتا ہے اور جھاڑ پھونک وغیر جیسے عملیات کا سہارا لیتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ چیزیں فائدہ مند ہیں اور ضرر کو دفع کرتی ہیں تو اس کو اس حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہی چیزوں کے سپرد کردیا جاتا ہے یعنی اس کو حق تعالیٰ کی مدد اعانت سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہ شفا نہیں پاتا کیونکہ ذات حق تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی چیز فائدہ دیتی ہے اور نہ نقصان پہنچاتی ہے، گویا اس ارشاد گرامی ﷺ کا مقصد تفویض و توکل کی طرف راغب کرنا ہے۔
Top