مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4448
وعن زينب امرأة عبد الله بن مسعود أن عبد الله رأى في عنقي خيطا فقال ما هذا ؟ فقلت خيط رقي لي فيه قالت فأخذه فقطعه ثم قال أنتم آل عبد الله لأغنياء عن الشرك سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الرقى والتمائم والتولة شرك فقلت لم تقول هكذا ؟ لقد كانت عيني تقذف وكنت أختلف إلى فلان اليهودي فإذا رقاها سكنت فقال عبد الله إنما ذلك عمل الشيطان كان ينخسها بيده فإذا رقي كف عنها إنما كان يكفيك أن تقولي كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أذهب البأس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما . رواه أبو داود .
ٹوٹکہ کی ممانعت
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی زینب ؓ کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ نے میرے گردن میں دھاگا پڑا ہوا دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ دھاگا ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے) زینب ؓ کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ نے (یہ سن کر) اس دھاگے کو (میری گردن سے) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبداللہ کے گھر والو، تم شرک سے بےپرواہ ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے اور ٹوٹکے شرک ہیں۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہوا ہے) چناچہ میری آنکھ (درد کے سبب) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑھ کر آنکھ کو دم کیا تو آنکھ کو آرام مل گیا۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی و غفلت ہے) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں) وہ شیطان کا کام تھا، شیطان تمہاری آنکھ کو کو نچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جس منتر کو پڑھا گیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے کہ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفاء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار تو ہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ) تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے!۔ (ابوداؤد)

تشریح
تم شرک سے بےپرواہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان و اسلام کی دولت دے کر کفر شرک سے دور کردیا ہے، لہٰذا تمہیں اس چیز کی حاجت نہیں ہے کہ تم اپنی بیماریوں اور مضرتوں کو ختم کرنے کے لئے ایسے افعال و ذرئع اختیار کرو جو شرک میں مبتلا کردیتے ہیں اور شرک کی حاجت نہیں ہے کہ تم اپنی بیماریوں اور مضرتوں کو ختم کرنے کے لئے ایسے افعال و ذرئع اختیار کرو جو شرک میں مبتلا کردیتے ہیں اور شرک کو متضمن ہیں، حضرت عبداللہ نے یہ باب یہ بات اس بناء پر فرمائی کہ اس زمانہ میں جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈے کے لئے منتر و افسوں کئے جاتے تھے وہ مشرکانہ مضامین پر مشتمل ہوتے تھے، ملا علی قاری نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ یہ عمل یعنی جھاڑ پھونک وغیرہ بیماری و مضرت کو دفع کرنے کا ایک قوی سبب ہے اور خود اس میں تاثیری طاقت ہے اس صورت میں یہ شرک خفی ہوگا اور یہ اعتقاد ہو کہ یہ چیز بذات خود مؤثر حقیقی ہے تو یہ شرک جلی کہلائے گا۔ جس منتر کو شرک کہا گیا ہے اس سے وہ منتر اور جھاڑ پھونک مراد ہے جس میں بتوں، دیویوں اور شیاطین کے نام لئے گئے ہوں جو کفریہ کلمات اور ایسی چیزوں پر مشتمل ہو جس کو شریعت نے جائز قرار نہ دیا ہو، نیز اس حکم میں ایسے منتر و افسوں بھی داخل ہیں جن کے معنی معلوم نہ ہوں۔ تمائم تمیمہ کی جمع ہے اور تمیمہ اس تعویذ کو کہتے ہیں جو گلے میں لٹکایا جاتا ہے۔ یہاں وہ تعویز مراد ہے جس میں اسماء الہٰی، قرآنی آیات اور منقول دعائیں نہ ہوں! اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تمیمہ منکے کو کہتے ہیں یعنی عرب میں عورتیں چتکبرے مہروں کو جوڑ کر بچوں کے گلے میں ڈال دیتی تھیں اور یہ عقیدہ رکھتی تھیں اس کی وجہ سے بچوں کو نظر نہیں لگتی، اسی کو تمیمہ کہتے ہیں۔ تولۃ ایک قسم کے ٹوٹکے کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان محبت قائم کرنے کے لئے دھاگے یا کاغذ تعویذ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ منتر منکے اور ٹوٹکے شرک ہیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب عملیات اور کام وہ ہیں جو اہل شرک کرتے ہیں اور یہ چیزیں شرک خفی یا شرک جلی کے ضمن میں آتی ہیں جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا۔ بلکہ شیطان کا کام تھا۔ یعنی تمہاری آنکھ میں جو درد تھا، وہ حقیقۃً درد نہیں تھا۔ بلکہ شیطان کی ان ایذاء رسانیوں میں سے ایک ایذاء رسانی تھی جس میں وہ انسان کو مبتلا کرتا رہتا ہے۔
Top