مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4427
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال العين حق فلو كان شيء سابق القدر سبقته العين وإذا استغسلتم فاغسلوا . رواه مسلم .
نظر بد کا لگنا ایک حقیقت ہے
اور حضرت ابن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا نظر بد حق ہے یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو۔ (مسلم )

تشریح
نظر حق ہے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کی نظر میں کسی چیز کا کھب جانا اور اچھا لگنا خواہ وہ چیز جاندار یعنی انسان و حیوان ہو، یا غیر جاندار جیسے مال و اسباب ہو اور پھر اس چیز پر دیکھنے والے کی نظر کا اثر انداز ہوجانا ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جو تقدیر الہٰی سے متعلق ہے، چناچہ حق تعالیٰ نے سحر و جادو کی طرح بعضوں کی نظر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ جس چیز کو لگ جاتی ہے اس کی ہلاکت و تباہی اور نقصان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اگر تقدیر الہٰی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا مرکز اور۔۔۔۔۔ و منبع، تقدیر الہٰی ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت کا اثر و نفوذ بھی تقدیر الہٰی سے پابستہ ہے اور چھوٹے سے چھوٹے تک کی حرکت و سکون بھی تقدیر الہٰی کے بغیر ممکن نہیں، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر کے دائرہ کو توڑ کر نکل جائے تو وہ نظر بد ہوتی کہ وہ تقدیر کو بھی پلٹ دیتی اور اس پر غالب آجاتی، گویا یہ بات اشیاء میں تاثیر نظر کی شدت اور اس کے سرعت نفوذ کو زیادہ سے زیادہ کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے۔ اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہوجاتا تھا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کرلو اعضاء جسم کو اس مقصد کے لئے دھونے کا طریقہ دوسری فصل کے اخیر میں ذکر ہوگا۔۔ واضح رہے کہ جمہور علماء اہل حق کا مسلک تو یہی ہے کہ جاندار خواہ وہ انسان ہو یا حیوان اور اموال میں جائیداد وغیرہ میں نظر کی تاثیر یعنی نظر لگنے سے نقصان پہنچنا ثابت ہے جب کہ بعض لوگ جیسے معتزلہ وغیرہ اس کے منکر ہیں جیسا کہ وہ اموال وغیرہ میں دوا اور صدقہ و خیرات کی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جس چیز کا وقوع پذیر ہونا مقدر میں لکھ دیا گیا ہو اس میں کسی اور چیز کا دخل نہیں ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ تقدیر کے لکھے کو کوئی چیز متغیر نہیں کرسکتی۔ لیکن وہ لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ تقدیر عالم اسباب کے ساتھ کوئی تضاد و منافات نہیں رکھتی، چناچہ نظر کی تاثیر اور سببیت اس بناء پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اس طرح کی خاصیت رکھ دی ہے کہ وہ ہلاکت و نقصان کا سبب بن جائے علاوہ ازیں علماء اہل حق کے مسلک کی دلیل کے یہ ارشاد گرامی ﷺ العین الحق ہے کہ جب شارع (علیہ السلام) نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ نظر کی تاثیر برحق ہے تو اس کا اعتقاد رکھنا واجب اور ضروری ہے۔ رہی بات یہ کہ نظر لگنے کی کیفیت و صورت کیا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے نظر زدہ کو نقصان و ضرر کیسے پہنچتا ہے تو اس سلسلے میں علماء نے مفصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سلسلے میں بعض ایسے لوگوں نے جن کی نظر عام طور پر کسی نہ کسی کو لگتی رہتی ہے بیان کیا کہ جب ہمیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور ہم اس پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آنکھوں سے حرارت نکل رہی ہو، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ نظر لگانے والے کی آنکھ سے ایک خاص قسم کی حرارت سمیہ نکلتی ہے جو ہوا میں مخلوط ہوجاتی ہے اور وہ ہوا پھر نظر زدہ تک پہنچتی ہے تو اس کے نقصان و ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے جیسا کہ بعض قدیم محققین کے مطابق اس سانپ کی زہر کی کیفیت ہوتی ہے جو محض اپنی نظر کے ذریعہ زہر کو منتقل کرتا ہے کہ اس کی نظر جس پر بھی پڑجاتی ہے اس تک اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اور وہ ہلاک ہوجاتا ہے حاصل یہ کہ دکھائی نہ دینے والی کوئی شئے نظر لگانے والے کی نظر سے تیر کی طرح روانہ ہوتی ہے اور اگر کوئی ایسی چیز درمیان میں نہ ہوتی ہے جیسے حرز و تعویز اور دوا وغیرہ تو وہ شئے نظر زدہ تک نہیں پہنچتی اور اس میں اثر و نفوذ نہیں کرتی بلکہ اگر وہ حرز و تعویز قوی و مضبوط قسم کا ہوتا ہے تو وہ شئے نظر لگانے والے ہی کی طرف پلٹ آتی ہے جیسا کہ اگر مقابل کے پاس سخت و مضبوط سپر ہوتا ہے تو تیر مارنے والے کا تیر سپر سے ٹکرا کر الٹا مارنے والے کو آ کر لگتا ہے، چناچہ حق تعالیٰ نے جس طرح بعض لوگوں کی نظر میں مذکورہ خاصیت و تاثیر پیدا کی ہے اسی طرح نفوس کاملہ یعنی اہل اللہ اور کاملین کو بھی اس نظر بد کے دفعیہ کی قوت اور اس میں تصرف کی طاقت عطا فرما دی ہے تاکہ وہ عوام کو دعا و تعویز کے ذریعہ نظر بد کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد دیں۔
Top