مشکوٰۃ المصابیح - صلح کا بیان - حدیث نمبر 3944
4044 - [ 3 ] ( صحيح ) وعن أنس : أن قريشا صالحوا النبي صلى الله عليه و سلم فاشترطوا على النبي صلى الله عليه و سلم أن من جاءنا منكم لم نرده عليكم ومن جاءكم منا رددتموه علينا فقالوا : يا رسول الله أنكتب هذا ؟ قال : نعم إنه من ذهب منا إليهم فأبعده الله ومن جاءنا منهم سيجعل الله له فرجا ومخرجا . رواه مسلم
صلح حدیبیہ کی تین خاص شرطیں
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ( مکہ کے) قریش نے نبی کریم ﷺ سے مصالحت کی۔ چناچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہ شرط منوائی کہ آپ میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے ہم اس کو واپس نہیں کریں گے اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے آپ ﷺ اس کو ہمارے پاس واپس کردیں گے۔ صحابہ نے ( اس شرط کو اپنی ملی حمیّت و وقار کے منافی اور اصول مصالحت کے تقاضوں سے بعید جان کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم ان شرائط کو لکھ دیں یعنی کیا یہ شرائط آپ تسلیم کرتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو شخص ان کے پاس جائے گا، تو ( ظاہر ہے کہ وہ مرتد ہو کر بھاگے گا اس اعتبار سے) وہ ( ایک ایسا) شخص ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہوگا اور ان میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا ( اس کو اگرچہ اس وقت ہم واپس کرنے پر مجبور ہوں گے لیکن آخر کار) اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کے لئے شادمانی و کشادگی اور خلاصی ونجات کے سامان پیدا کر دے گا۔ (مسلم)
Top