مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4057
وعن محمد بن علي بن حسين عن علي بن أبي طالب قال : عق رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الحسن بشاة وقال : يا فاطمة احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضة فوزناه فكان وزنه درهما أو بعض درهم . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب وإسناده ليس بمتصل لأن محمد بن علي بن حسين لم يدرك علي بن أبي طالب
لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنے کا مسئلہ
حضرت محمد بن علی بن حسین ؓ ( یعنی حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین شہید ؓ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا رسول کریم ﷺ نے ( اپنے نواسے اور میرے بچے) حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی تھی اور فرمایا کہ فاطمہ ؓ! اس ( حسن ؓ کا سر مونڈو اور اس کے بال کے ہم وزن چاندی صدقہ کردو۔ چناچہ ہم نے ان بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم یا ایک درہم سے کم وزن کے تھے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور اس کی اسناد متصل یعنی مسلسل نہیں ہے۔ کیونکہ محمد بن علی بن حسین نے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری یا بکرا بھی ذبح کیا جاسکتا ہے، نیز ابوداؤد نے بھی حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کی طرف سے عقیقہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا، یہ حدیث آگے آرہی ہے۔ لیکن نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے دو دو مینڈھے روایت کئے ہیں اور حضرت بریدہ ؓ نے مطلق نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کی طرف سے عقیقہ کیا۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ اگرچہ ایک بکری کی روایت بھی صحیح ہے۔ لیکن زیادہ مضبوط اور زیادہ صحیح وہی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں ذبح کی جائیں، کیونکہ اس روایت کو صحابہ کی ایک پوری جماعت نے نقل کیا ہے نیز لڑکے کے عقیقہ میں دو بکری کو ذبح کرنے کو ترجیح دینے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ایک بکری ذبح کرنا آپ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔ اور دو بکریاں ذبح کرنا آپ ﷺ کے ارشاد سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز قول سے ثابت ہو وہ فعل سے کہیں زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ مکمل سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ فعل کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص حالت سے متعلق ہو، جب کہ قول میں عمومیت واکملیت ہوتی ہے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فعل تو محض جواز پر دلالت کرتا ہے اور قول سے جواز کے ساتھ استحباب بھی ثابت ہوتا ہے، ترمذی نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جن صحابہ کی روایتیں منقول ہیں، وہ یہ ہیں، حضرت علی ؓ عنہ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت ام کرز ؓ، حضرت بریدہ ؓ عنہ، حضرت سمرہ ؓ عنہ، حضرت ابوہریرہ ؓ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ عنہ، حضرت انس ؓ عنہ، حضرت سلمان بن عامر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ۔ اور ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے، احتمال ہے کہ لڑکے کے حق میں استحباب کا کم سے کم درجہ ایک بکری ہو اور کمال استحباب دو بکری ہو جس حدیث میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ حدیث کم سے کم درجہ پا اکتفا کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لئے ہو یا یہ کہ یہ حدیث دراصل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لازم اور ضروری نہیں ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں جو دو بکری یا جو دو منڈھے ذبح کئے جاتے ہیں، وہ دونوں ساتویں ہی دن ذبح ہوں، لہٰذا ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حسن و حسین ؓ کی طرف سے ایک ایک بکری یا ایک ایک مینڈھا تو ان کی پیدائش کے دن ہی ذبح کردیا ہو اور دوسری بکری یا دوسرے منڈھے کو ساتویں دن ذبح کیا ہو اس تاویل و توضیح کی صورت میں تمام روایتوں کے درمیان مطابقت و یکسانیت پیدا ہوجائے گی اور کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا، یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک ہی مینڈھا یا ایک بکری کے ذریعہ عقیقہ کیا اور اس کے ساتھ حضرت علی ؓ یا حضرت فاطمہ ؓ کو حکم فرمایا کہ دوسرا مینڈھا یا دوسری بکری وہ ذبح کردیں، لہٰذا جس روایت میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس میں تو گویا آنحضرت ﷺ کی طرف یہ نسبت کہ آپ ﷺ نے ایک بکری یا ایک منڈھے کے ذریعہ عقیقہ کیا حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ اور جس روایت میں آپ ﷺ کی طرف دو بکری یا دو دنبے کو ذبح کرنے کی نسبت کی گئی ہے وہ مجاز ہے۔ اس کا سر مونڈو۔ یہ حکم یا تو حقیقۃ تھا کہ فاطمہ ؓ تم اپنے ہاتھ سے اس کا سر مونڈو، یا یہ مطلب تھا کہ کسی دوسرے شخص کو حکم دو کہ اس کا سر مونڈ دے۔ یہ امر ( یعنی آنحضرت ﷺ کی طرف سے سر مونڈنے کا حکم دیا جاتا، استحباب کے طور پر ہے۔ اسی طرح بالوں کو وزن کرنے کا حکم بھی بطریق استحباب کے ہے۔
Top