مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4048
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : كان أهل الجاهلية يأكلون أشياء ويتركون أشياء تقذرا فبعث الله نبيه وأنزل كتابه وأحل حلاله وحرم حرامه فما أحل فهو حلال وما حرم فهو حرام وما سكت عنه فهو عفو وتلا ( قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما ) رواه أبو داود
حلت وحرمت کے احکام میں خواہش نفس کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ( اپنی خواہش نفس کے مطابق) کچھ چیزوں کو کھاتے تھے اور کچھ چیزوں کو جھوڑ دیتے تھے، یعنی جن چیزوں سے ان کو نفرت ہوتی ان کو نہیں کھاتے تھے) چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا اور ( ان نبی ﷺ پر اور ان کے ذریعہ ان کی امت پر) اپنی کتاب نازل کی اور اپنی حلال چیزوں کو حلال قرار دیا اور اپنی حرام چیزوں کو حرام قرار دیا ( یعنی یہ بیان کردیا کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال کیا ہے وہی حلال ہے اس کے علاوہ حلال نہیں ہے) اور جس چیز کو حرام کہا ہے وہی حرام ہے اور جس چیز سے سکوت اختیار کیا ( یعنی جس چیز کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ یہ حلال ہے یا حرام) تو وہ چیز معاف ہے ( کہ اس پر مواخذہ نہیں) اور پھر حضرت ابن عباس ؓ نے یہ آیت پڑھی اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ جو احکام بذریعہ وحی میرے پاس آتے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا خون الخ۔۔ ( ابوداؤد)

تشریح
لفظ حلالہ میں مصدر استعمال کیا گیا ہے جو مفعول کے قائم مقام ہے، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی بعثت اور اپنی کتاب ہدایت ( قرآن مجید) کے نزول کے ذریعہ اس چیز کو ظاہر واضح کردیا جو حلال کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے جو آیت تلاوت کی وہ پوری یوں ہے ا یت (قُلْ لَّا اَجِدُ فِيْ مَا اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُه اِلَّا اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّه رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِه )۔ 6۔ الانعام 145) ( اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ جو احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تو کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ( مرا ہوا جانور) ہو یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو جانور شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ یہ آیت کریمہ حضرت ابن عباس ؓ نے ان لوگوں کی تردید میں پڑھی جو محض اپنی خواہش نفس کی بنا پر کسی چیز کی حلت و حرمت کے فیصلہ کرتے تھے، کہ جس چیز کی طرف ان کی طبیعت راغب ہوئی اس کو حلال جان کر کھاتے اور جس چیز سے ان کو کراہت و نفرت ہوتی، اس کو حرام سمجھ کر ترک کردیتے، لہٰذا حضرت ابن عباس ؓ نے ان لوگوں پر اس آیت کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ حلال وہی چیز ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (علیہ السلام) نے حلال قرار دیا ہو اور حرام وہی چیز ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہو نہ کہ حلت و حرمت کا تعلق خواہش نفس سے ہے۔ از قسم جانور و گوشت جن چیزوں کے حرام ہونے کا حکم کتاب اللہ میں بیان کیا گیا ہے، وہ بس یہی ہیں جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اور دوسری چیزوں کی حرمت سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہوئی ہے۔ اور وہ چونکہ زیادہ ہیں اس لئے حضرت ابن عباس ؓ نے ان کے بارے میں منقول احادیث بیان نہیں کیں، محض اس آیت کی تلاوت پر اکتفا کیا۔
Top