مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4021
وعن أبي السائب قال : دخلنا على أبي سعيد الخدري فبينما نحن جلوس إذ سمعنا تحت سريره فنظرنا فإذا فيه حية فوثبت لأقتلها وأبو سعيد يصلي فأشار إلي أن أجلس فجلست فلما انصرف أشار إلى بيت في الدار فقال : أترى هذا البيت ؟ فقلت : نعم فقال : كان فيه فتى منا حديث عهد بعرس قال : فخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى الخندق فكان ذلك الفتى يستأذن رسول الله صلى الله عليه و سلم بأنصاف النهار فيرجع إلى أهله فاستأذنه يوما فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : خذ عليك سلاحك فإني أخشى عليك قريظة . فأخذ الرجل سلاحه ثم رجع فإذا امرأته بين البابين قائمة فأهوى إليها بالرمح ليطعنها به وأصابته غيرة فقالت له : اكفف عليك رمحك وادخل البيت حتى تنظر ما الذي أخرجني فدخل فإذا بحية عظيمة منطوية على الفراش فأهوى إليها بالرمح فانتظمها به ثم خرج فركزه في الدار فاضطربت عليه فما يدري أيهما كان أسرع موتا : الحية أم الفتى ؟ قال : فجئنا رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكرنا ذلك له وقلنا : ادع الله يحييه لنا فقال : استغفروا لصاحبكم ثم قال : إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم منها شيئا فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر . وقال لهم : اذهبوا فادفنوا صاحبكم وفي رواية قال : إن بالمدينة جنا قد أسلموا فإذا رأيتم منهم شيئا فآذنوه ثلاثة أيام فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان . رواه مسلم
سانپ کو مار ڈالنے کا حکم
اور حضرت سائب ( جو حضرت ہشام ابن زہرہ کے ازاد کردہ غلام تھے اور تابعی ہیں) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ہم حضرت ابوسعید خدری ؓ کے پاس ان کے گھر گئے، چناچہ جب کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہم نے ان ( ابوسعید) کے تخت کے نیچے ایک سرسراہٹ سنی ہم نے دیکھا تو وہاں ایک سانپ تھا، میں اس کو مارنے کے لئے جھپٹا، مگر حضرت ابوسعید ؓ نماز پڑھ چکے تو انہوں نے مکان کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا تم نے اس کمرے کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں! پھر حضرت ابوسعید ؓ نے کہا کہ اس کمرے میں ہمارے خاندان کا ایک نوجوان رہا کرتا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ حضرت ابوسعید نے کہا کہ ہم سب لوگ ( یعنی وہ نوجوان بھی) رسول کریم ﷺ کے ہمراہ غزوہ خندق میں گئے، ( جس کا محاذ مدینہ کے مضافات میں قائم کیا گیا تھا) ( روزانہ) دوپہر کے وقت رسول کریم ﷺ سے ( گھر جانے کی) اجازت مانگ لیا کرتا تھا ( کیونکہ دلہن کی محبت اس کو اس پر مجبور کرتی تھی) چناچہ ( اجازت ملنے پر) وہ اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا ( اور رات گھر میں گزار کر صبح کے وقت پھر مجاہدین میں شامل ہوجاتا) ایک دن حسب معمول، اس نے رسول کریم ﷺ سے اجازت طلب کی تو آنحضرت ﷺ نے ( اس کو اجازت دیتے ہوئے) فرمایا کہ اپنے ہتھیار اپنے ساتھ رکھو، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بنو قریظہ تم پر حملہ نہ کردیں ( بنو قریظہ مدینہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو اس موقع پر قریش مکہ کا حلیف بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھا اس نوجوان نے ہتھیار لے لئے اور ( اپنے گھر کو) روانہ ہوگیا) جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو) کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ( گھر کے) دونوں دروازوں ( یعنی اندر اور باہر کے دروازے) کے درمیان کھڑی ہے، نوجوان نے عورت کو مار ڈالنے کے لئے اس کی طرف نیزہ اٹھایا کیونکہ ( یہ دیکھ کر کہ اس کی بیوی باہر کھڑی ہے) اس کو بڑی غیرت آئی لیکن عورت نے ( جبھی) اس سے کہا کہ اپنے نیزے کو اپنے پاس روک لو اور ذرا گھر میں جا کر دیکھو کہ کیا چیز میرے باہر نکلنے کا سبب ہوئی ہے۔ ( یہ سن کر) وہ نوجوان گھر میں داخل ہوا، وہاں یکبارگی اس کی نظر ایک بڑے سانپ پر پڑی جو بستر پر کنڈلی مارے پڑا تھا۔ نوجوان نیزہ لے کر سانپ پر جھپٹا اور اس کو نیزہ میں پرو لیا پھر اندر سے نکل کر باہر آیا اور نیزے کو گھر کے صحن میں گاڑ دیا، سانپ نے تڑپ کر نوجوان پر حملہ کیا، پھر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دونوں میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا نوجوان؟ ( یعنی وہ دونوں اس طرح ساتھ مرے کہ یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ پہلے کس کی موت واقع ہوئی )۔ حضرت ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے یہ ماجرا بیان کر کے عرض کیا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اس نوجوان کو ہمارے لئے زندہ کر دے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی اور رفیق کے لئے مغفرت طلب کرو۔ اور پھر فرمایا کہ۔ ( مدینہ کے ان گھروں میں عوامر یعنی جنات رہتے ہیں ( جن میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی) لہٰذا جب تم ان میں سے کسی کو ( سانپ کی صورت میں) دیکھو تو تین بار یا تین دن اس پر تنگی اختیار کرو پھر اگر وہ چلا جائے تو فبہا ورنہ اس کو مار ڈالو کیونکہ ( اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ) وہ ( جنات میں کا) کافر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ۔ جاؤ اپنے ساتھی کی تکفین و تدفین کرو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مدینہ میں ( کچھ) جن ہیں ( اور ان میں وہ بھی ہیں) جو مسلمان ہوگئے ہیں ان میں سے جب تم کسی کو ( سانپ کی صورت میں) دیکھو تو تین دن اس کو خببردار کرو، پھر تین دن کے بعد بھی اگر وہ دکھائی دے تو اس کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہے۔ ( مسلم )

تشریح
آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ صحابہ کی یہ روش نہیں تھی کہ وہ اس طرح کی کوئی استدعا آنحضرت ﷺ سے کریں۔ اس موقع پر ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ نوجوان حقیقت میں مرا نہیں ہے بلکہ زہر کے اثر سے بیہوش ہوگیا ہے۔ اس خیال سے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس دعا کی استدعا کی تھی۔ مغفرت طلب کرو۔ اس ارشاد سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اس کو زندہ کرنے کی دعا کی درخواست کیوں کرتے ہو کیونکہ وہ تو اپنی راہ پر چل کر موت کی گود میں پہنچ گیا ہے جس کے حق میں زندگی کی دعا قطعا فائدہ مند نہیں ہے، اب تو اس کے حق میں سب سے مفید چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت اور بخشش کی درخواست کرو۔ اس پر تنگی اختیار کرو یا اس کو خبردار کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب سانپ نظر آئے تو اس سے کہو کہ تو تنگی اور گھیرے میں ہے اب نہ نکلنا اگر پھر نکلے گا تو ہم تجھ پر حملہ کریں گے اور تجھ کو مار ڈالیں گے، آگے تو جان۔ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ سے یہ منقول ہے کہ سانپ کو دیکھ کر یہ کہا جائے انشدکم بالعہد الذی اخذ علیکم سلیمان بن داؤد علیماالسلام لا تاذونا ولا تظہروا لنا۔ میں تجھ کو اس عہد کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے تجھ سے لیا تھا کہ ہم کو ایذاء نہ دے اور ہمارے سامنے مت آ۔ وہ شیطان ہے۔ یعنی خبردار کردینے کے بعد بھی وہ غائب ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مسلمان جن نہیں ہے بلکہ یا تو کافر جن ہے یہ حقیقت میں سانپ ہے اور یا ابلیس کی ذریات میں سے ہے اس صورت میں اس کو فورا مار ڈالنا چاہئے۔ اس کو شیطان اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آگاہی کے بعد بھی نظروں سے غائب نہ ہو کر اس نے اپنے آپ کو سرکش ثابت کیا ہے اور عام بات کہ جو بھی سرکش ہوتا ہے خواہ وہ جنات میں کا ہو یا آدمیوں میں کا اور یا جانوروں میں کا اس کو شیطان کہا جاتا ہے۔
Top