مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4019
وعن ميمونة أن فأرة وقعت في سمن فماتت فسئل رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ألقوها وما حولها وكلوه . رواه البخاري
جس گھی میں چوہا گر جائے اس کا حکم
اور حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گرپڑا اور مرگیا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا ( اس گھی کا کیا کیا جائے) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال کر پھینک دو اور ( باقی) گھی کو کھاؤ۔ ( بخاری )

تشریح
یہ اس گھی کا حکم ہے جو جما ہوا ہو اور جو گھی پگھلا ہوا ہو وہ تو اس صورت میں سارا نجس ہوجاتا ہے اور بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں، اس طرح اس گھی کو بیچنا بھی اکثر ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ البتہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کے بیچنے کو جائز رکھا ہے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا اس گھی سے کوئی اور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ چناچہ بعض حضرات کے نزدیک اس سے کوئی بھی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کو چراغ میں جلانے، کشتیوں پر ملنے یا اس طرح کے کسی اور مصرف میں لا کر اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ قول حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ہے اور حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول جو زیادہ مشہور ہے، بھی یہی ہے۔ لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد سے دو روایتیں منقول ہیں۔ حضرت امام مالک سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس گھی کو مسجد کے چراغ میں جلانا جائز نہیں ہے۔
Top