Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (3969 - 4060)
Select Hadith
3969
3970
3971
3972
3973
3974
3975
3976
3977
3978
3979
3980
3981
3982
3983
3984
3985
3986
3987
3988
3989
3990
3991
3992
3993
3994
3995
3996
3997
3998
3999
4000
4001
4002
4003
4004
4005
4006
4007
4008
4009
4010
4011
4012
4013
4014
4015
4016
4017
4018
4019
4020
4021
4022
4023
4024
4025
4026
4027
4028
4029
4030
4031
4032
4033
4034
4035
4036
4037
4038
4039
4040
4041
4042
4043
4044
4045
4046
4047
4048
4049
4050
4051
4052
4053
4054
4055
4056
4057
4058
4059
4060
مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4003
وعن جابر قال : أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الكلاب حتى إن المرأة تقدم من البادية بكلبها فتقتله ثم نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن قتلها وقال : عليكم بالأسود البهيم ذي النقطتين فإنه شيطان . رواه مسلم وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه و سلم أمر بقتل الكلاب إلا كلب صيد أو كلب غنم أو ماشية
کتوں کو مار ڈالنے کا حکم
اور حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں ( مدینہ کے) کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا چناچہ ( ہم مدینہ اور اطراف مدینہ کے کتوں کو مار ڈالتے تھے) یہاں تک کہ جو عورت جنگل سے آتی اور اس کا کتا اس کے ساتھ ہوتا تو ہم اس کو بھی ختم کردیتے تھے، پھر بعد میں آنحضرت ﷺ نے عام کتوں کو مار ڈالنے سے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کے خالص سیاہ کتے کو جو دو نقطوں والا ہو مار ڈالنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ ( مسلم )
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ کتوں کو مار ڈالنے کا حکم صرف مدینہ منورہ کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ وہ شہر مقدس محض اسی اعتبار سے تقدیس کا حامل نہیں تھا کہ اس میں سرکار دو عالم ﷺ اقامت پذیر تھے بلکہ اس اعتبار سے بھی اس کو پاکیزگی کی عظمت حاصل تھی کہ وہ وحی کے نازل ہونے اور ملائکہ کی آمدورفت کی جگہ تھا، لہذا یہ بات بالکل موزوں اور مناسب تھی کہ اس کی سر زمین کو کتوں کے وجود سے پاک رکھا جاتا۔ عورتوں کی تخصیص یا تو اس وجہ سے ہے کہ جو عورتیں جنگل میں بود وباش رکھتی تھیں ان کو ( مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے) کتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی اور جب وہ شہر میں آتیں تو اس وقت بھی ان کا کتا ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ یا یہ کہا جائے کہ یہاں عورت کی قید محض اتفاقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کتوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا تھا جو جنگل سے شہر آجاتے تھے خواہ وہ کسی عورت کے ساتھ آتے یا کسی مرد وغیرہ کے ساتھ۔ جو دو نقطوں والا ہو یعنی وہ کالا بھجنگ کتا جس کی دونوں آنکھوں پر دو سفید نقطے ( ٹپکے) ہوتے ہیں۔ اس قسم کا کتا چونکہ انتہائی شریر اور لوگوں کے لئے سخت تکلیف اور ایذاء پہنچانے والا ہوتا ہے اس لئے اس کو شیطان فرمایا گیا ہے۔ اس کو شیطان کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کتا نہ نگہبانی کے کام کا ہوتا ہے اور نہ شکار پکڑنے کے مصرف کا، چناچہ اسی سبب سے حضرات امام احمد و اسحق نے یہ کہا ہے کہ سیاہ کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال نہیں کیونکہ وہ شیطان ہے۔ حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ عقور یعنی کٹ کھنے کتے کو مار ڈالنے پر تو علمار کا اتفاق ہے اگرچہ وہ سیاہ رنگ کا نہ ہو لیکن اس کتے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں جو نقصان و ضرر پہنچانے والا نہ ہو۔ امام حرمین کہتے ہیں کہ کتوں کو مار ڈالنے کے حکم کی اصل صورت حال یہ ہے کہ پہلے تو نبی کریم ﷺ نے ہر قسم کے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا، بعد میں اس حکم کی عمومیت منسوخ کر کے اس کے صرف یک رنگ سیاہ کتے تک محدود کردیا گیا اور پھر آخری طور پر ان تمام کتوں کو مار ڈالنے کی ممانعت نافذ ہوئی جو نقصان و ضرر پہنچانے والے نہ ہوں، یہاں تک کہ یک رنگ سیاہ کتے کو بھی اس حکم میں شامل کردیا گیا اگر اس سے نقصان و ضرر پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو اس کو بھی ختم نہ کیا جائے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو ( سارے کتوں کے یا مدینہ کے) کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، لیکن شکاری کتوں اور بکریوں کی حفاظت کرنے والے کتوں اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کو مستثنی رکھا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح او ماشیۃ ( اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے) یہ جملہ تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے۔ یعنی استثناء کے سلسلے میں پہلے تو خاص طور پر بکریوں کو حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کیا پھر اور بعد میں عمومی طور پر تمام جانوروں کی حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کردیا، لہٰذا اس صورت میں حرف او تنویع کے لئے ہوگا جیسا کہ ماقبل کی عبارت میں ہے۔ یا یہ کہ او ماشیۃ میں حرف او راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اس کے ذریعہ حدیث کے راوی نے بتانا چاہا ہے کہ مجھے صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر الا کلب صید او کلب کے بعد غنم فرمایا گیا تھا یا ما شیۃ۔
Top