مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 3999
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من دابة إلا وقد ذكاها الله لبني آدم . رواه الدارقطني
دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے
اور حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پانی کا ایسا کوئی جانور نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لئے ذبح نہ کردیا ہو۔ ( دارقطنی)

تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دریائی جانوروں کو بغیر ذبح کئے ہوئے کھانا حلال ہے، ان کو محض شکار کرلینا اور پانی میں سے زندہ نکال لینا ذبح کا حکم رکھتا ہے۔ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام دریائی جانور حلال ہیں، خواہ وہ خود سے مرجائیں اور خواہ ان کا شکار کیا جائے۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ یوں نہیں ہے، بلکہ مچھلی کے حلال ہونے پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے اور مچھلی کے علاوہ دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ دریائی جانوروں میں سے مچھلی کے علاوہ اور کوئی جانور حلال نہیں ہے اور وہ مچھلی بھی حلال نہیں ہے جو سردی و گرمی کی آفت کے بغیر خود بخود مر کر پانی کے اوپر آجائے اور الٹی تیرنے لگے۔ اور جو مچھلی سردی و گرمی کی آفت سے مر کر پانی کے اوپر آجائے تو وہ حلال ہے۔ ذبیحہ سے متعلق چند مسائل جو جانور اور جو پرندے شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں یا ان کی غذا صرف گندگی ہے، ان کا کھانا جائز نہیں ہے جیسے شیر، بھیڑیا، گیدڑ، بلی، کتا، بندر، شکرا، باز اور گدھ وغیرہ اور جو جانور اس طرح کے نہ ہوں جیسے طوطا، مینا، فاختہ، چڑیا، پیڑ، مرغابی، کبوتر، نیل گائے، ہرن، بطخ اور خرگوش وغیرہ ان کا کھانا جائز ہے۔ بجو، گوہ، کچھوا، خچر اور گدھا، گدھی کا گوشت کھانا اور گدھی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، جو حلال جانور ( بغیر ذبح کئے ہوئے) خود بخود مرجائے گا وہ مردار ہوگا اس کا کھانا حرام ہے۔ اگر کسی چیز میں چیونٹیاں گر کر مرجائیں تو ان چیونٹیوں کا نکالے بغیر اس چیز کو کھانا درست نہیں ہے، اگر قصدا ایک آدھ چیونٹی کو بھی حلق کے نیچے جانے دیا تو مردار کھانے کا گناہ ہوگا۔ مسلمان کا ذبح کرنا ہر حالت میں درست ہے چاہے عورت ذبح کرے اور چاہے مرد، اسی طرح خواہ پاک ہو یا ناپاک، ہر حال میں اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حلال ہے۔ کافر یعنی مرتد، آتش پرست اور بت پرست وغیرہ کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حرام ہے۔ اگر کوئی کافر گوشت بیچتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں نے مسلمان سے ذبح کرایا ہے تو اس سے گوشت خرید کر کھانا درست نہیں، البتہ جس وقت مسلمان نے ذبح کیا ہے اگر اسی وقت سے کوئی مسلمان اس گوشت کے پاس برابر بیٹھا رہا ہے، یا وہ جانے لگا تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی جگہ بیٹھ گیا ہے، تب اس گوشت کا کھانا درست ہوگا۔ اگر کسی ایسے جانور کو ذبح کیا گیا جس کا کھانا حلال نہیں ہے تو اس کی کھال اور گوشت پاک ہوجاتے ہیں ( کہ ان کو کھانے کے علاوہ کسی اور استعمال میں لانا بلا کراہت درست ہوتا ہے) علاوہ آدمی اور سؤر کے کہ ان دونوں میں ذبح کرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، آدمی کی کھال کا ناپاک ہونا تو اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے ہے اور سور کی کھال وغیرہ کا ناپاک ہونا اس کے نجس ہونے ہی کی وجہ سے ہے کہ وہ پاک کرنے سے بھی ہرگز پاک نہیں ہوسکتی۔ جو مرغی، گندی اور پلید چیزیں کھاتی پھرتی ہو، اس کو تین دن بند رکھ کر ذبح کرنا چاہئے، اس کو بغیر بند کئے ذبح کر کے اس کا گوشت کھانا مکروہ ہے۔ جانور کو کند چھری سے ذبح کرنا مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ اس میں جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح ذبح کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال کھینچنا، ہاتھ پاؤں توڑنا کاٹنا اور ذبح میں جن چار رگوں کو کاٹنا چأہئے ان کے کٹ جانے کے بعد بھی گلا کاٹے جانا، یہ سب مکروہ ہے۔ ٹڈی کو کھانا جائز ہے اور مچھلی کی طرح اس کو بھی ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور جن کا نہیں کھایا جاتا، شکار دونوں کا کرنا جائز ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ شکار کا مقصد محض لہو و لعب اور تفریح طبع نہ ہو بلکہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کی نیت ہو، جو جانور حلال ہیں ان کا گوشت کھانا ہی ان سے سب سے بڑا نفع حاصل کرنا ہے، ہاں جو جانور حلال نہیں ہیں انکا شکار اگر اس مقصد سے کیا جائے کہ ان کی کھال وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جائے گا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ حاصل یہ کہ جانوروں کی جان کی بھی قدر کرنی چاہئے، ان کو خواہ مخواہ کے لئے مار ڈالنا اور بلا ضرورت و بلا مقصد کے ان کا شکار کرتے پھرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ذبح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے تیز چھری ہاتھ میں لے کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کے اس کے گلے کو کاٹا جائے، یہاں تک کہ چاروں رگیں کٹ جائیں۔
Top