مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 3982
وعن أنس قال : غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم بعبد الله بن أبي طلحة ليحنكه فوافيته في يده الميسم يسم إبل الصدقة
جانوروں کو کسی ضرورت ومصلحت کی وجہ سے داغنا جائز ہے
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں ( ایک دن) صبح کے وقت عبداللہ بن ابوطلحہ ؓ کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ ﷺ کھجور چبا کر اس کے تالو میں لگا دیں، چناچہ اس وقت میں نے آپ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے دست مبارک میں داغنے کا آلہ تھا جس کے ذریعہ زکوٰۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
عبداللہ بن طلحہ ؓ ماں کی طرف سے حضرت انس ؓ کے بھائی تھے یعنی ماں کی طرف سے حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے اور ابوطلحہ ؓ عنہ، حضرت انس ؓ کی ماں کے دوسرے خاوند تھے جن سے عبداللہ پیدا ہوئے تھے کھجور چبا کر اس کا لعاب بچے کے تالو میں لگانا سنت ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ان اونٹوں کو داغنا کسی خلجان کا باعث نہیں بننا چاہئے کیونکہ آپ ﷺ منہ کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر داغ دے رہے تھے اور داغنے کی جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق خاص طور پر منہ سے ہے، یا بلا ضرورت داغنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ زکوٰۃ کے اونٹوں کو اس ضرورت کے تحت داغا جا رہا تھا کہ ان کے اور دوسرے اونٹوں کے درمیان فرق و امتیاز کیا جاسکے۔
Top