مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 3981
وعنه أن النبي صلى الله عليه و سلم مر عليه حمار وقد وسم في وجهه قال : لعن الله الذي وسمه . رواه مسلم
منہ پر مارنے یا منہ کو داغنے کی ممانعت
اور حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کے سامنے سے ایک گدھا گزرا جس پر داغ دیا گیا تھا آپ ﷺ نے ( اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔ ( مسلم )

تشریح
اگر یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ آنحضرت ﷺ نے اس گدھے کے منہ پر داغ دینے والے پر لعنت فرمائی حالانکہ مسلمانوں پر لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ ہوسکتا ہے کہ داغنے والا مسلمان نہ رہا ہو یا منافقین میں سے ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ کا یہ لعنت کرنا بد دعا کے طور پر نہ ہو بلکہ اخبار بالغیب کے طور پر ہو یعنی آپ ﷺ نے اس جملہ کے ذریعہ گویا یہ خبر دی کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں لعنت کا مستوجب قرار پا گیا ہے۔ جاننا چاہئے کہ کسی بھی جاندار کے منہ پر داغ دینا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک ممنوع ہے، خواہ آدمی ہو یا کوئی بھی جانور و حیوان! جانور کے منہ کے علاوہ اس کے جسم کے کسی اور حصہ پر داغ دینے کا مسئلہ یہ ہے کہ امتیاز و تعین کے مقصد سے زکوٰۃ اور جزیہ کے جانوروں کو داغنے کو تو بعض علماء نے مستحب کہا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کو داغنا بھی محض جائز ہے۔ جہاں تک آدمیوں پر داغ دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ اور صحابہ وغیرہ کے مختلف اخبار و آثار قولا اور فعلا منقول ہیں۔ بعض اقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے، بعض اقوال مدح ترک پر دلالت کرتے ہیں اور بعض اقوال صریح ممانعت کو ثابت کرتے ہیں، جب کہ آنحضرت ﷺ کا یہ عمل جواز پر دلالت کرتا ہے آپ ﷺ نے ایک طبیب کو حضرت ابی بن کعب ؓ کے پاس بھیجا جس نے ان کی فصد کھولی اور داغا، نیز حضرت جابر ؓ اور حضرت سعد بن معاذ ؓ زخمی ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے ان پر داغ دینے کی اجازت دی، بلکہ جب ورم ہوا تو ان پر اور داغ دیا گیا، نیز حضرت جابر ؓ اور حضرت ابوذرارہ ؓ کے جسم پر داغ دیا جانا بھی منقول ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جن اقوال میں انسانی جسم کو داغنے کی ممانعت مذکور ہے ان کا تعلق قصدا بلا ضرورت و امتیاج داغنے سے ہے، ہاں اگر کسی مرض وغیرہ کے سلسلے میں داغ دینے کی ضرورت ہو تو جائز ہے۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ( علاج کی نیت سے) انسانی جسم کے کسی حصہ کو داغنا، اسباب و ہم یہ میں سے ہے کہ اس کو اختیار کرنا جذبہ توکل و اعتماد علی اللہ کے اعتبار سے مناسب نہیں ہے جب کہ دوسرے علاج اسباب طنیہ میں سے ہونے کی وجہ سے توکل کے قطعا منافی نہیں ہیں، ہاں اگر اس بات کا ظن غالب ہو کہ داغنا، مرض کے دفعیہ کے لئے ایک سود مند علاج ہوگا تو اس صورت میں اس کو اختیار کرنا غیر مناسب نہیں ہوگا۔ چناچہ اہل فتویٰ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ داغنا بذاتہ مکروہ تحریمی ہے مگر ظن غالب حاصل ہونے کی صورت میں بایں طور کہ طبیب حاذق یہ کہہ دے کہ مرض کے دفعیہ کا انحصار صرف داغنے پر ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا علاج نہیں ہے تو داغنا مکروہ تحریمی نہیں ہوگا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت اس بنیاد پر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس بات کا پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ داغنا مرض کے دفعیہ کے لئے ایک قطعی اور یقینی علاج ہے، ظاہر ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک باطل عقیدہ تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا تاکہ وہ اس کو اختیار کرنے سے شرک خفی کے جال میں نہ پھنس جائیں۔
Top