Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (3969 - 4060)
Select Hadith
3969
3970
3971
3972
3973
3974
3975
3976
3977
3978
3979
3980
3981
3982
3983
3984
3985
3986
3987
3988
3989
3990
3991
3992
3993
3994
3995
3996
3997
3998
3999
4000
4001
4002
4003
4004
4005
4006
4007
4008
4009
4010
4011
4012
4013
4014
4015
4016
4017
4018
4019
4020
4021
4022
4023
4024
4025
4026
4027
4028
4029
4030
4031
4032
4033
4034
4035
4036
4037
4038
4039
4040
4041
4042
4043
4044
4045
4046
4047
4048
4049
4050
4051
4052
4053
4054
4055
4056
4057
4058
4059
4060
مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 3117
وعن أبي سعيد الخدري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الدنيا حلوة خضرة وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون فاتقوا الدنيا واتقوا النساء فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء . رواه مسلم
عورت کے فتنہ سے بچو
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنیا شیریں اور سبز جاذب نظر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا کا خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہ ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس دنیا میں کس طرح عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں کے فتنہ سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا ( مسلم)
تشریح
دنیا شیریں اور سبز ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شیرنی طبیعت کے لئے ایک مرغوب چیز ہوتی ہے اور اس طرح سبز چیز آنکھوں کو بہت بھاتی ہے اسی طرح دنیا بھی دل کو بہت پیاری لگتی ہے اور آنکھوں کو بھی بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا کا خلیفہ بنایا ہے الخ، کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہی اس کا حقیقی مالک وحاکم ہے تمہیں اس نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر گویا اس دنیا کے تصرفات میں تمہیں اپنا وکیل بنایا ہے لہذا اللہ تعالیٰ تمہیں ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس زمین پر اس کے بار خلافت کو کس طرح اٹھا رہے ہو اور اپنی عملی زندگی کے ذریعہ تصرفات دنیا میں حق وکالت کس طرح ادا کر رہے ہو؟ یا اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا خلیفہ وارث بنایا ہے، لہذا ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب تمہیں دیدیا ہے اور اب وہ تمہیں دیکھتا ہے کہ تم اپنے اسلاف کے احوال و کوائف سے کس طرح عبرت پکڑتے ہو اور ان کے اموال و میراث میں کس طرح تصرف و انتظام کرتے ہو۔ دنیا سے بچو الخ، کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مکروفریب کا بچھا ہوا ایک جال ہے اس جال سے حتی الامکان بچتے رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جال میں پھنس کر دنیا کے ظاہری مال وجاہ پر اپنی دینداری گنوا بیٹھو کیونکہ دنیا کو ثبات نہیں ہے یہ ایک فنا ہو جانیوالی چیز ہے پھر اس فناء کے بعد کل جب تم ہمیشہ کی زندگی کے لئے اٹھائے جاؤ گے تو اس کی حلال چیزوں کا حساب دینا ہوگا اور اس کی حرام چیزوں پر عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے۔ اسی طرح عورتوں کے مکروفریب سے بھی بچتے رہو، کیونکہ ایک مشت خاک کا یہ دل فریب مجسمہ جہاں نیک عورت کی صورت میں اللہ کی ایک نعمت ہے وہیں بری عورت کے روپ میں فتنہ عالم بھی ہے ایسا نہ ہو کہ بری عورتوں کی مکاریاں یا اپنی بیویوں کی بےجانازبرداریاں تمہیں ممنوع و حرام چیزوں کی طرف مائل کردیں اور ان کی وجہ سے تم تباہی و ہلاکت کی کھائیوں میں دکھیل دئیے جاؤ۔ بنی اسرائیل پر تباہی کے دروازے کھولنے والا پہلا فتنہ عورت تباہیوں کے دروازے کھلنے کا پہلا سبب اور ذریعہ بنا۔ چناچہ اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک شخص جس کا نام بلعم بن باعور تھا۔ بہت مستجاب الدعوات تھا، اسے اسم اعظم یاد تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی ہر دعا مقبول کرا لیتا تھا، چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جباروں سے لڑنے کے لئے علاقہ شام میں واقع بنی کنعان کے ایک حصہ میں خیمہ زن ہوئے تو بلعم کی قوم کے لوگ بلعم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے پیروکاروں کا ایک عظیم لشکر لے کر ہمیں قتل کرنے اور اس علاقہ سے نکالنے کے لئے آئے ہیں تم ان کے لئے کوئی ایسی بددعا کرو کہ وہ یہاں سے واپس بھاگ جائیں۔ بلعم نے جواب دیا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم وہ نہیں جانتے بھلا میں اللہ کے پیغمبر (علیہ السلام) اور اس کے ماننے والوں کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں؟ اگر میں ان کے لئے بددعا کرتا ہوں تو میری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ جب اس قوم کے لوگوں نے بہت منت سماجت کی اور وہ بددعا کرنے پر اصرار کرتے رہے تو بلعم نے کہا کہ اچھا میں استخارہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا حکم ہوتا ہے پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ بلعم کا یہ معمول تھا کہ وہ بغیر استخارہ کوئی بھی کام نہیں کرتا تھا چناچہ اس نے جب استخارہ کیا تو خواب میں اسے ہدایت کی گئی کہ پیغمبر اور مؤمنوں کے حق میں ہرگز بددعا مت کرنا! بلعم نے اس خواب سے اپنی قوم کو مطلع کیا اور بددعا نہ کرنے کے لئے اپنے ارادہ کا پھر اظہار کیا قوم کے لوگوں نے غور و فکر کے بعد ایک طریقہ اختیار کیا کہ اور وہ یہ کہ وہ لوگ اپنے ساتھ بیش قیمت تحفے لے کر بلعم کے پاس آئے اور پھر اس کے سامنے بہت ہی زیادہ منت سماجت کی، روئے گڑگڑائے اور اسے اتنا مجبور کیا کہ آخر کار وہ ان کے جال میں پھنس ہی گیا چناچہ وہ بددعا کرنے کی غرض سے اپنے گدھے پر سوار ہو کر جستان پہاڑ کی طرف چلا جس کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا لشکر مقیم تھا، راستہ میں کئی مرتبہ گدھا گرا جسے وہ مار مار کر اٹھاتا رہا یہاں تک کہ جب یہ سلسلہ دراز ہوا اور بلعم بھی اپنے گدھے کو مار مار کر اٹھاتا ہوا پریشان ہوگیا تو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے گدھے کو گویائی عطاء کی چناچہ گدھا بولا کہ نادان بلعم! تجھ پر افسوس ہے کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ تو کہاں جا رہا ہے تو مجھے آگے چلانے کی کوشش کر رہا ہے اور ملائکہ میرے آگے آ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں بلعم نے جب چشم حیرت سے گدھے کو بولتے دیکھا تو بجائے اس کے کہ اس تنبیہ پر اپنے ارادہ سے باز آجاتا گدھے کو وہیں چھوڑا پیادہ یا پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں بددعا کرنے لگا مگر یہاں بھی قدرت الٰہی نے اپنا یہ کرشمہ دکھایا کہ بلعم اپنی بددعا میں جب بھی حضرت موسیٰ اور ان کے لشکر کا نام لینا چاہتا اس کی زبان سے بنی اسرائیل کے بجائے بلعم کی قوم کا نام نکلتا۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ بلعم یہ کیا حرکت ہے بنی اسرائیل کی بجائے ہمارے حق میں بددعا کر رہے ہو؟ بلعم نے کہا کہ اب میں کیا کروں یہ حق تعالیٰ میرے قصد و ارادہ کے بغیر میری زبان سے تمہارا نام نکلوا رہا ہے۔ لیکن بلعم پھر بھی اپنی بددعا سے باز نہ آیا اور اپنی سی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ عذاب الٰہی کی وجہ سے بلعم کی زبان اس کے منہ سے نکل کر سینہ پر آ پڑی پھر تو گویا بلعم کی عقل بالکل ہی ماری گئی اور دیوانہ وار کہنے لگا کہ لو اب تو میری دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہوگئی اس لئے اب ہمیں بنی اسرائیل کی تباہی کے لئے کوئی دوسرا جال تیار کرنا پڑے گا۔ پھر اس نے مشورہ دیا کہ تم لوگ اپنی اپنی عورتوں کو اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور ان کے ہاتھو میں کچھ چیزیں دے کر ان چیزوں کو فروخت کرنے کے بہانہ سے عورتوں کو بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان سے کہ دو کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کوئی شخص تمہیں اپنے پاس بلائے تو انکار نہ کرنا یاد رکھو اگر بنی اسرائیل میں سے ایک بھی شخص کسی عورت کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہوگیا تو تہاری ساری کوششیں کامیاب ہوجائیں گی۔ چناچہ بلعم کی قوم نے اس مشورہ پر عمل کیا اور اپنی عورتوں کو بنا سنوار کر بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دیا وہ عورتیں جب لشکر میں پہنچیں اور ان میں سے ایک عورت جس کا نام کسی بنت صور تھا، بنی اسرائیل کے ایک سردار زمزم بن شلوم نامی کے سامنے سے گزری تو وہ اس عورت کے حسن و جمال کا اسیر ہوگیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لے گیا اور ان سے کہنے لگا کہ کیا آپ اس عورت کو میرے لئے حرام قرار دیتے ہیں؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ ہاں، اس عورت کے پاس ہرگز مت جانا تو زمزم نے کہا کہ میں اس بارے میں آپ کا حکم نہیں مانوں گا چناچہ وہ اس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ منہ کالا کیا بس پھر کیا تھا حکم الٰہی نے قہر کی شکل اختیار کرلی اور اس سردار کی شامت عمل سے ایک ایسی وبا پورے لشکر پر نازل ہوئی کہ آن کی آن میں ستر ہزار آدمی ہلاک و تباہ ہوگئے ادھر جب فحاص کو کہ جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کا پوتا اور ایک قوی ہیکل آدمی تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نگہبان تھا یہ معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سردار کی شامت عمل نے قہر الٰہی کو دعوتی دیدی ہے تو فورًا اپنا ہتھیار لے کر زمزم کے خیمہ میں داخل ہوا اور پلک جھپکتے ہی زمزم اور اس عورت کا کام تمام کر ڈالا اور پھر بولا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی شخص کی وجہ سے ہم سب کو ہلاک وتباہ کردیا ہے چناچہ ان دونوں کے قتل ہوتے ہی وہ وباء جو عذاب الٰہی کی صورت میں نازل ہوئی تھی ختم ہوگئی۔
Top