مشکوٰۃ المصابیح - شفعہ کا بیان - حدیث نمبر 3000
مساقات اور مزارعت کا بیان
مساقات کی صورت یہ ہے کہ مثلا زید اپنا باغ یا اپنے کچھ درخت بکر کو اس شرط کے ساتھ دے کہ تم ان درختوں کو سیراب کرنا ان کی دیکھ بھال کرنا پھر ان پر جو پھل آئیں گے ان کو آدھوں آدھ یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ جو بھی مقدار مقرر ہو آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ مزارعت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا زید اپنی زمین بکر کو اس شرط کے ساتھ دے کہ تم اس کو جوتنا بونا اس کی جو پیداوار ہوگی اسے آدھوں آدھ یا تہائی اور یا چوتھائی جو بھی مقدار مقرر ہو آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ گویا مساقات اور مزارعت دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی بٹائی پر دینا فرق صرف اتنا ہے کہ مساقات کا تعلق تو درختوں سے ہوتا ہے اور مزارعت کا تعلق زمین سے ہے ان دونوں کا فقہی حکم بھی ایک ہے مساقات اور مزارعت یعنی اپنے درختوں یا زمین کوئی بٹائی پر دینا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک فاسد ہے جب کہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نیز دوسرے علماء کے نزدیک یہ جائز ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا اجارہ ہے جس میں اجر مجہول اور معدوم ہوتا ہے پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ سے مخابرت مزارعت کی نہی ثابت ہے لیکن فتوی چونکہ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے قول پر ہے اس لئے حنفیہ کے ہاں بھی مساقات اور مزارعت جائز ہے۔
Top