مشکوٰۃ المصابیح - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 1784
عن أبي هريرة قال : لما توفي النبي صلى الله عليه و سلم واستخلف أبو بكر وكفر من كفر من العرب قال عمر : يا أبا بكر كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا : لا إله إلا الله فمن قال : لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله . قال أبو بكر : والله لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة فإن الزكاة حق المال والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم لقاتلتهم على منعها . قال عمر : فوالله ما هو إلا أن رأيت أن قد شرح الله صدر أبي بكر للقتال فعرفت أنه الحق
مانعین زکوٰۃ سے حضرت ابوبکر ؓ کا اقدام
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ قرار پائے تو اہل عرب میں جنہیں کافر ہوگئے یعنی زکوٰۃ کے منکر ہوگئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ فیصلہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں یعنی اہل ایمان سے کیونکہ جنگ کریں گے۔ جب کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں (یعنی اسلام لے آئیں) لہٰذا جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا یعنی اسلام قبول کرلیا اس نے مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیا سوائے اسلام کے حق اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے کیونکہ جس طرح جان کا حق نماز ہے اسی طرح بلاشبہ مال کا حق زکوٰۃ ہے اور اللہ کی قسم اگر وہ لوگ جو منکر زکوٰۃ ہو رہے ہیں مجھے بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو وہ رسول کریم ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمر ؓ یہ سن کر کہنے لگے اللہ کی قسم اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کہ میں نے جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کرنے کے لئے الہام کے ذریعہ حضرت ابوبکر ؓ کا دل کھول دیا ہے یعنی پر یقین کردیا ہے لہٰذا مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہی یعنی منکرین زکوٰۃ سے جنگ ہی حق اور درست ہے۔

تشریح
جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ اول قرار پائے تو کچھ نئے فتنوں نے سر ابھارنا چاہا۔ اس بارے میں ہم نے دسویں قسط میں تذکرہ صدیق کے تحت کچھ روشنی ڈالی تھی اور وہاں ان فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خصوصیت سے فتنہ ارتداد کا ذکر کیا تھا جس کے متلعق بتایا تھا کہ اس عظیم فتنہ کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کتنی جرات اور تدبر کے ساتھ ختم کیا اور وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ مذکورہ بالا حدیث میں اسی قسم کے ایک اور فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی صورت یہ ہوئی کہ کچھ قبائل مثلا غطفان اور بنی سلیم وغیرہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اس طرح انہوں نے اسلام کے اس اہم اور بنیادی فریضہ کا انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کسی فریضہ پر عمل نہ کرنا اور بات ہے مگر اس فریضہ کا سرے سے انکار ہی کردینا ایک دوسرے معنی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ منکرین زکوٰۃ کے بارے میں کفر حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے ویسے اس لفظ کے بارے میں تفصیل یہ کی جاتی ہے کہ یا تو ان لوگوں کے بارے میں لفظ کفر (وہ کافر ہوگئے) حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے کیونکہ زکوٰۃ کی فرضیت قطعی ہے اور فرضیت زکوٰۃ سے انکار کفر ہے یا یہ کہ ان لوگوں کو کافر اس لئے کہا گیا کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا لہٰذا ان کے اس سخت جرم پر بطریق تغلیظ و تشدید کفر کا اطلاق کیا گیا۔ بہرحال جو معنی بھی متعین کئے جائیں ان کا یہ جرم اتنا سخت تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت عمر ؓ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ان لوگوں کے ظاہر احوال کے مطابق کہ وہ لوگ بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہی تھے ان کے کفر میں تامل کیا اور حضرت ابوبکر ؓ کے اس فیصلہ پر اعتراض کیا مگر جب حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں حقیقت حال بتائی تو نہ صرف یہ کہ وہ بھی حضرت ابوبکر ؓ کے فیصلے کے ہمنوا ہوگئے بلکہ انہیں یقین کامل بھی ہوگیا کہ حضرت ابوبکر ؓ کی فراست ایمانی اور ان کے تدبر نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ دوسرے صحابہ ؓ حتی کہ حضرت علی ؓ نے بھی حضرت ابوبکر ؓ کو جنگ کرنے سے منع کی اور کہا کہ عہد خلافت کا ابتدائی دور ہے مخالف بہت زیادہ ہیں ایسا نہ ہو کہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑے اور اسلام کو کسی طرح نقصان پہنچ جائے اس لئے اس معاملے میں ابھی توقف کرنا چاہئے مگر حضرت ابوبکر ؓ نے نہایت جرات اور بہادری کے ساتھ انہیں یہ جواب دیا کہ اگر اس معاملے میں تمام لوگ ایک طرف ہوجائیں اور میں تنہا رہ جاؤں تو پھر بھی اپنے فیصلے میں کوئی لچک نہیں دکھاؤں گا اور شعائر دین کی حفاظ اور اسلام کے نظریات و اعمال کے تحفظ کے لئے میں نے جو قدم اٹھایا ہے اس میں لغزش نہیں آئے گی اور میں پوری قوم سے تن تنہا جنگ کروں گا اس سے حضرت ابوبکر ؓ کی اصابت رائے، جرات اور شجاعت و بہادری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا، میں لاالہ الا اللہ سے مراد پورا کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ہے کیونکہ اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اسلام قبول کرنے کے لئے صرف لا الہ الا اللہ کہہ لینا ہی معتبر نہیں ہے بلکہ اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار بھی ضروری ہے۔ الا بحقہ (سوائے اسلام حق کے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس پر دیت لازم ہوگی یا اور کسی قسم کا کوئی حق اس کے ذمے ہوگا تو اس کی ادائیگی بہر صورت ضروری ہوگی اسی طرح قصاص وغیرہ میں اسے قتل کیا جاسکے گا۔ وحسابہ علی اللہ (ا ور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے گا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے گا تو ہم اس کے مسلمان ہونے کا اعلان کردیں گے اور اس سے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ہم اس کے باطن کی تحقیق و تفتیش کریں گے کہ آیا وہ اپنے ایمان و اسلام میں مخلص و صادق ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے باطن کا حال اللہ کے سپرد کردیں گے اگر وہ صرف ظاہر طور پر مسلمان ہوا ہوگا اور دل سے ایمان نہیں لایا ہوگا جیسا کہ منافقین کا حال ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ اس سے نمٹ لے گا۔ من فرق بین الصلوۃ والزکاۃ (جو شخص نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا) یعنی نماز کے وجوب کا تو قائل ہو مگر زکوٰۃ کے وجوب کا منکر ہو یا نماز پڑھتا ہو مگر زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ عناق بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو ایک برس سے کم عمر کا ہو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے ارشاد میں بکری کا بچہ فرض اور واجب حق کے طلب کرنے کا سلسلہ میں بطور مبالغہ فرمایا ہے۔ یہاں یہ حقیقت پر محمول نہیں ہے کیونکہ نہ تو بکری کا وہ بچہ جو ایک سال سے کم ہو زکوٰۃ ہی میں لیا جاتا ہے اور نہ بکری کے ایسے بچوں میں زکوٰۃ ہی واجب ہوتی ہے زکوٰۃ میں لینے کے لئے ادنیٰ درجہ مسنہ ہے (یعنی وہ بچہ جو ایک سال کا ہو) اگر بچے بکریوں کے ساتھ ہوں گے تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی لیکن بہر صورت زکوٰۃ میں مسنہ ہی دیا جائے گا یہی حکم گائے اور اونٹوں کا ہے کہ زکوٰۃ کے طور پر بھی مسنہ ہی دیا جائے گا پچھلی قسط میں غالباً بتایا جا چکا ہے کہ بکریوں کا مسنہ تو وہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو اور گائے کا مسنہ وہ ہے جس کی عمر دو سال ہو اور اونٹ کا مسنہ وہ ہے جو پانچ سال کا ہو۔ اب آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے جو فرمایا کہ میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا، تو ابھی اوپر کفر کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی تھی اسی طرح اس قول کے بارے میں بھی یہ تفصیل ہوگی کہ وہ وجوب زکوٰۃ کے منکر ہوگئے ہیں تو میں ان کے کفر اور ان کے ارتداد کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا اور اگر وہ منکر زکوٰۃ تو نہ ہوئے ہوں بلکہ زکوٰۃ ادا نہ کر رہے ہوں تو پھر ان سے میری جنگ شعائر اسلام کی حفاظت اور اس فتنہ کے سدباب کے لئے ہوگی۔
Top