مشکوٰۃ المصابیح - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 1781
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من استفاد مالا فلا زكاة فيه حتى يحول عيه الحول . رواه الترمذي وذكر جماعة أنهم وقفوه على ابن عمر
مال مستفاد کی زکوٰۃ کا مسئلہ
حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس کسی کو مال حاصل ہوا تو اس پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ ایک سال نہ گزر جائے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ایک جماعت کے بارے میں کہا ہے کہ اس نے اس حدیث کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے یعنی یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابن عمر کا قول ہے۔

تشریح
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مال مستفاد کسے کہتے ہیں؟ فرض کیجیے کہ آپ کے پاس اسی بکریاں موجود ہیں جن پر ابھی سال پورا نہیں ہے اسی درمیان میں اکتالیس بکریاں اور آپ کو حاصل ہوجاتی ہیں خواہ وہ میراث میں حاصل ہوئی ہوں یا تجارت سے منافع کی صورت میں اور خواہ کسی نے آپ کو ہبہ کردی ہوں بہر حال اس طرح بکریوں کی تعداد اسی کی بجائے ایک سو اکیس ہوگئی چناچہ یہ اکتالیس بکریاں جو آپ کو درمیان سال حاصل ہوئی ہیں مال مستفاد کہلائیں گی۔ گویا مال مستفاد کی تعریف یہ ہوئی کہ وہ مال کی جنس سے ہو اور درمیان سال حاصل ہوا ہو۔ اب اس حدیث کی طرف آئیے ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر مال کی وجہ سے زکوٰۃ فرض ہو اور سال کے درمیان اسے کچھ مزید مال پہلے سے موجود مال ہی کی جنس سے (مثلاً پہلے سے بکریاں موجود ہوں تو بکریاں ہی یا پہلے سے گائیں موجود ہوں تو گائیں) ملے تو بعد میں حاصل ہونے والے اس مال پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی جب کہ اس مال پر پورا سال نہ گزر جائے چناچہ حضرت امام شافع کا یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اصل (پہلے سے موجود) مال ہی پر پورا سال گزر جانا کافی ہے بعد میں حاصل ہونے والے مال پورا سال گزرے یا نہ گزرے زکوٰۃ مجموعہ مال پر واجب ہوجائے گی۔ اس اختلاف کو مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس اسی بکریاں ہیں جن پر ابھی چھ مہیینے ہی گزرے تھے کہ پھر اسے اکتالیس بکریاں حاصل ہوگئیں چاہے تو انہیں اس نے خریدا ہو چاہے اسے وراثت میں ملی ہوں یا کسی اور طرح اس نے حاصل کی ہوں تو ان بعد میں ملنے والی اکتالیس بکریوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ان بکریوں پر بھی ان کو خریدنے یا وراثت میں حاصل ہونے کے وقت سے ایک سال پورا ہوجائے گا تو زکوٰۃ واجب ہوگی حضرت امام شافعی اور ان کے ساتھ ہی حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھ حضرت امام مالک کے نزدیک وہ مال مستفاد (جو بعد میں حاصل ہوا ہے) اصل (یعنی پہلے سے موجود) مال کے تابع ہوگا، جب پہلے سے موجود اسی بکریوں پر ایک سال گزر جائے گا تو مجموعہ بکریوں پر زکوٰۃ میں دو بکریاں نکالنا واجب ہوجائے گا کیونکہ بکریوں کی زکوٰۃ کا نصاب چالیس ہے یعنی چالیس سے کم بکریوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ بلکہ چالیس سے ایک سو بیس کی تعداد پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ جب تعداد ایک سو اکیس ہوجاتی ہے تو دو بکریاں واجب ہوجاتی ہیں لہٰذا مذکورہ بالا صورت میں پہلے اور بعد کی بکریوں کی مجموعی تعداد چونکہ ایک سو اکیس ہوگئی اس لئے دو بکریاں واجب ہوں گی۔ اب رہ گئی یہ بات کہ حدیث سے تو بظاہر حضرت امام شافعی ہی کے مسلک کی تائید ہو رہی ہے تو اس بارے میں حنفی علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کے وہ معنی ہیں ہی نہیں جو شافعی حضرات بیان کرتے ہیں بلکہ اس کا تو مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ابتدائی طور پر مال پائے اور حاصل کرے تو اس پر زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ مال پر ایک سال گزر جائے لہٰذا حدیث میں مال سے مستفاد مراد نہیں ہے۔
Top