مشکوٰۃ المصابیح - روزے کا بیان - حدیث نمبر 1967
وعن سلمان قال : خطبنا رسول الله صلى الله عليه و سلم في آخر يوم من شعبان فقال : يا أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم مبارك شهر فيه ليلة خير من ألف شهر جعل الله تعالى صيامه فريضة وقيام ليله تطوعا من تقرب فيه بخصلة من الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه ومن أدى فريضة فيه كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه وهو شهر الصبر والصبر ثوابه الجنة وشهر المواساة وشهر يزداد فيه رزق المؤمن من فطر فيه صائما كان له مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار وكان له مثل أجره من غير أن ينقص من أجره شيء قلنا : يا رسول الله ليس كلنا يجد ما نفطر به الصائم . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على مذقة لبن أو تمرة أو شربة من ماء ومن أشبع صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار ومن خفف عن مملوكه فيه غفر الله له وأعتقه من النار . رواه البيهقي
رمضان، برکات وسعادت کا مہینہ
حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے (جمعہ کا یا بطور تذکیر و نصیحت) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! باعظمت مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے (یعنی ماہ رمضان آیا ہی چاہتا ہے) یہ بڑا ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں قیام (عبادت خداوندی) جاگنا نفل قرار دیا ہے جو اس ماہ مبارک میں نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور جس شخص نے ماہ رمضان میں (بدنی یا مالی) فرض ادا کی تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں (یعنی رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے (کہ روزہ دار کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے) وہ صبر جس کا ثواب بہشت ہے ماہ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے لہٰذا اس ماہ میں محتاج و فقراء کی خبر گیری کرنی چاہئے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں (دولت مند اور مفلس ہر طرح) مومن کا (ظاہر اور معنوی) رزق زیادہ کیا جاتا ہے جو شخص رمضان میں کسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے) افطار کرائے تو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ کی آگ سے اس کی حفاظت کا سبب ہوگا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند ثواب ملے گا بغیر اس کے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سب تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عنایت فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور یا ایک گھونٹ پانی ہی کے ذریعے افطار کرا دے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے تو اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض (یعنی حوض کوثر) سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ (اس کے بعد) پیاسا نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہوجائے اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ بخشش ہے یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے اور اس کے آخری حصے میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے (مگر تینوں چیزیں مومنین کے لئے ہی مخصوص ہیں کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے) اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا۔

تشریح
اور اس کی راتوں میں قیام نفل قرار دیا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں نماز تراویح اور اسی قسم کی دوسری سنت مؤ کدہ عبادتوں کے لئے شب بیداری کو نفل قرار دیا ہے لہٰذ جس نے شب بیداری کی اور نماز تراویح وغیرہ پڑھی وہ عظیم اجر وثواب سے نوازا جائے گا اور جو شخص اسے ترک کرے گا وہ نہ صرف یہ کہ خیر بھلائی کی سعادتوں سے محروم رہے گا، بلکہ حق تعالیٰ کے عتاب میں بھی گرفتار ہوگا۔ اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز تراویح کو نفل قرار دیا ہے کیونکہ نماز تراویح تو سنت مؤ کدہ ہے اور اس کی بڑی تاکید ہے چناچہ ابوداؤد کی باب فی شہادۃ الواحد علی رویۃ ہلال رمضان میں ایک روایت منقول ہے جس کے یہ الفاظ ہیں فامر بلال فنادی فی الناس ان یقوموا وان یصوموا (یعنی جب رمضان کے چاند کی گواہی گزر چکی تو آپ ﷺ نے بلال ؓ کو اعلان کرنے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے اعلان کیا کہ قیام کیا جائے یعنی نماز تراویح پڑھی جائے اور روزہ رکھا جائے۔ یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے، اس لئے فرمایا کہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد پیاس کو وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے، آیت (انک لا تظماء فیہا)، بیشک تم جنت میں پیاسے نہیں ہوگے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص اس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہیں ہوگا۔ رمضان کے ابتدائی یعنی اول عشرہ کو رحمت فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب کہ باری تعالیٰ کی رحمت عام کا نزول ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اگر اس کی رحمت نہ ہو تو پھر نہ کوئی روزہ رکھے اور نہ کوئی تراویح وغیرہ پڑھے۔ اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کیا کرو، کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزہ دار اپنے خدمت گار اور ملازم کے ساتھ انتہائی مروت اور محبت و رحمت کا معاملہ کرے اور ان کے فرائض خدمت میں آسانی اور رعایت کرے اس طرح عام دنوں کی بہ نسبت روزہ کی حالت میں ان پر اپنی خدمت اور دوسرے کاموں کا بوجھ نہ ڈالے۔
Top